نئی دہلی: (ویب ڈیسک) ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کی علمبردار متعدد تنظیموں نے بھارتی حکومت سے کالا ترین قانون کے تحت گرفتار کیے جانے والے مسلم طلبہ کی صورتحال پرگہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق دنیا کی دو درجن سے زائد حقوق انسانی کی علمبردار تنظیموں نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے نام ایک خط میں، ان مسلم طلبہ کی فوری طور پر رہائی کا مطالبہ کیا ہے، جنہیں حکومت نے انسداد دہشتگردی جیسے سیاہ ترین قوانین کے تحت جیلوں میں قید کر رکھا ہے۔
تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان کی گرفتاریوں کا کوئی جواز نہیں ہے اور حکومت محض شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے لیے انہیں سزا دے رہی ہے۔
طویل خط میں سب سے پہلا نام جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ صفورہ زرگر کا ہے، جو چار ماہ کی حاملہ ہیں، گزشتہ دو ماہ سے وہ دہلی کے تہاڑ جیل میں بغیر کس عدالتی کارروائی کے بند ہیں۔ میران حیدر اور شفاء الرحمان کا تعلق بھی جامعہ ملیہ سے ہے جبکہ شرجیل امام جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں۔ یہ طلبہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مہم کے روح رواں تھے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق بی جے پی کی حکومت نے ان جیسے اور بھی کئی افراد کو فسادات برپا کرنے کے الزام میں انسداد دہشت گردی جیسے سخت قانون کے تحت گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا ہے اور ان کی ضمانت کی گنجائش بھی کم ہی نظر آتی ہے۔
ایمنسٹی انٹر نیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت یورپ، امریکا، افریقہ اور ایشیا سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی 25 تنظیموں نے حکومت کے اس قدم پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔
عالمی تنظیموں نے خط میں لکھا ہے کہ کووڈ 19 وبا کے دوران قید میں ان کی زندگی اور صحت کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ چاروں کارکنان کیساتھ ساتھ ان تمام افراد کو بھی فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کریں، جو صرف حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے اپنے اظہار رائے کی آزادی کے حق کا استعمال کر رہے تھے۔
ان تنظیموں نے حکومت پر قانون کے غلط استعمال کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان طلبہ کو شہریت قانون کے خلاف احتجاج کے لیے سزا دی جا رہی ہے۔ ہمیں سخت تشویش ہے کہ بھارتی حکومت نے انسانی حقوق کو کمزور کرنے، احتجاج اور پریس کی آزادی کو دبانے کے لیے (یو اے پی اے) جیسے انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین کا باقاعدگی سے غلط استعمال کیا ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کے وکیل محمود پراچہ نے بتایا کہ چونکہ اس کیس میں کوئی ثبوت نہیں ہے اس لیے حکومت نے دانستہ طور پر یو اے پی اے کا استعمال کیا ہے تاکہ ضمانت نہ مل سکے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب وزیر داخلہ امیت شاہ کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے ہورہا ہے۔ وہ ان افراد کو سبق سکھانا چاہتے ہیں جو شہریت قانون کے خلاف احتجاج میں پیش پیش تھے۔