آیا صوفیہ کے بعد ہماری اگلی منزل مسجد اقصیٰ ہے: رجب طیب اردوان

Last Updated On 24 July,2020 10:00 pm

انقرہ: (ویب ڈیسک) ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ آیا صوفیہ کے بعد ہماری اگلی منزل مسجد اقصیٰ ہے۔

 

اسرائیلی خبر رساں ادارے کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ 86 سال بعد آیا صوفیہ کو مسجد بنانے کے بعد ہماری اگلی منزل مسجد اقصیٰ ہے، جسے ہم آزاد کروائیں گے۔

یاد رہے کہ حال ہی میں ترک عدالت کی جانب سے تاریخی عمارت آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کی اجازت دیے جانے کے بعد 24 جولائی کو وہاں پہلی بار 86 سال کے بعد نماز ادا کی گئی۔

ترک عدالت نے 10 جولائی کو آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کی اجازت دی تھی جس کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے 11 جولائی کو عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنے کی منظوری دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: استنبول: آیا صوفیہ میں 86 سال بعد نماز جمعہ ادا کر دی گئی، ہزاروں افراد کی شرکت

آیا صوفیہ عمارت کو 1934 میں مصطفیٰ کمال اتاترک نے میوزیم میں تبدیل کردیا تھا، اس سے قبل مذکورہ عمارت سلطنت عثمانیہ کے قیام سے مسجد میں تبدیل کی گئی تھی۔

استنبول میں واقع یہ تاریخی عمارت 1453 سے قبل 900 سال تک بازنطینی چرچ کے طور پر استعمال ہوتی تھی اور یہ بھی معروف ہے کہ مذکورہ عمارت کو سلطنت عثمانیہ کے بادشاہوں نے پیسوں کے عوض خرید کر مسجد میں تبدیل کیا تھا۔

مگر پھر جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد سلطنت عثمانیہ کے بکھرنے اور جدید سیکولر ترکی کے قیام کے بعد مصطفیٰ کمال اتاترک نے مسجد کو 1934 میں میوزیم میں تبدیل کردیا تھا۔

چرچ سے مسجد اور پھر میوزیم کے بعد دوبارہ مسجد میں تبدیل ہونے والی عمارت میں 24 جولائی کو 86 سال بعد نہ صرف نماز جمعہ ادا کی گئی بلکہ اسی دن عمارت میں تقریباً 9 دہائیوں بعد اذان بھی دی گئی۔

اسرائیلی خبر رساں ادارے کے مطابق اس بیان کو ترکی کے وزارت مذہبی امور بھی بار بار پھیلا رہے ہیں اور پیغام دیا جا رہا ہے کہ اسرائیل کیخلاف تمام عالم اسلام کے ممالک کو متحد ہونا ہو گا۔

اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ ترکی میں اسرائیل مخالف جذبات تیزی سے ابھر رہے ہیں، یہ جذبات دردِ سر بن سکتے ہیں۔ ترکی کی یہ بیان بازی ایران کی بیان بازی سے ملتی جلتی ہے، ایران میں مذہبی قیادت برسر اقتدار ہے، اسی طرح ترکی میں اے کے پارٹی اخوان المسلمین سے متاثر ہے جسکی ترجیح ’سب سے پہلے مسلم امہ‘ ہے، ان کا نظریہ باقی سب چیزیں بعد میں آتی ہیں۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق ایران علی الاعلان اسرائیل کے خلاف دھمکیاں لگاتا رہتا ہے، تاہم چند سال قبل ترکی کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات موجود تھے، اس تعلقات میں اس وقت دراڑ آئی جب 2009ء غزہ میں لڑائی ہوئی تھی، اس کے بعد دونوں ممالک میں پہلی پہلے تعلقات نہیں رہے۔ ترکی اسلامی دنیا میں بڑا مقام حاصل کرنے کے لیے مکمل کوششیں کر رہا ہے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ ترکی کے حماس کے ساتھ تعلقات قریبی ہوتے جا رہے ہیں جبکہ ایران بھی حماس کی حمایت کرتا ہے، انقرہ اور تہران کی خارجہ پالیسی میں مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانا پہلی ترجیح ہے۔ 

Advertisement