آئیے ! معاشی ترقی کا راز جانیں

Published On 28 March,2021 09:02 pm

لاہور: (دنیا میگزین) ہم ترقی میں دوسرے ممالک سے کیوں پیچھے ہیں؟ا یسا کیوں ہے کہ دنیا جو کام 10 سال پہلے کر لیتی ہے، ہمارے ہاں وہ کام بھی کسی عجوبے سے کم دکھائی نہیں دیتا؟

کاروباری فروغ کے حوالے سے 73 ممالک کی فہرست میں ہم سرے سے شامل ہی نہیں ہیں۔ انڈیا (27واں نمبر)،سعودی عرب (30واں نمبر) ، یونان (32واں نمبر)، سلوواکیہ (39واں نمبر)، ارجنٹائن (42 واں نمبر)، مصر (52واں نمبر)، سربیا (56واں نمبر) اومان (57واں نمبر)، مراکش(58واں نمبر)، اردن (60 واں نمبر)، سری لنکا (61واں نمبر)،کینیا (63واں نمبر)، ایکواڈور (67 واں نمبر) ، گھانا (68واں نمبر)اور میانمار (69 واں نمبر)بھی ہم سے آگے ہیں۔

اسی طرح ہمارے ہاں افراد کی انفرادی ترقی دیگر ممالک کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے ، وقت کے ساتھ ساتھ جہاں انسانی وسائل کی ترقی پر اٹھنے والے اخراجات میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے وہیں آج ہم مڑ کر دیکھتے ہیں تو 1979ء میں ایک نوبیل انعام کے بعد سے گزشتہ 40سال میں تحقیق کے شعبے میں ایک بھی بڑا انعام نہیں مل سکا۔پاکستان میں مجموعی آئی کیو 84، انڈیامیں 83ہے لیکن انڈیا کم آئی کیو کے باوجود 10 نوبیل انعام جیت چکا ہے، اور ہم ملالہ یوسف زئی والا نوبیل انعام ہی لے سکے ہیں۔

پاکستان کے 10 معروف ترین ناموں میں اس وقت عمران خان، عبدالستار ایدھی،ملالہ یوسف زئی،بے نظیر بھٹو،سیم اکرم، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، نورجہاں ، شاہدآفریدی، نواز شریف اور نصرت فتح علی خان ہیں ۔ذرا دیکھئے !ہماری فہرست میں تعلیم، صحت، تحقیق، سائنس کی کوئی شخصیت شامل ہے یا نہیں،اگر ہیں تو کتنی؟3سیاست دان،2 گلوکار، 3 کھلاڑیوں،2سماجی کارکن،ایک سائنس دان، وہ بھی جیسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں سب جانتے ہیں۔

کیا آ پ جانتے ہیں کہ گزشتہ برس کن لوگوں کو سائنس ، ٹیکنالوجی ، ریاضی یا ایسے کسی شعبے میں کون کون سے صدارتی تمغے دیئے گئے تھے؟ یہ لوگ ہمارے ہاں پہلی صفوں میں کیوں نہیں آ سکتے؟ کام کرنے کے باوجود بھی آگے نہیں آتے اور جو کام نہیں کر رہے ان کے لئے تو ویسے ہی کوئی جگہ نہیں ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہاں کم ہی لوگ ترقی کے زینے چڑھ پاتے ہیں، وجہ؟ مواقعوں کی کمی یا صلاحیت کا فقدان ، وسائل نہیں ہیں یا ہمت ؟

کیا ہم ذہنی صلاحیت میں دوسرے ممالک سے پیچھے ہیں ؟ اس کا جواب بھی کسی حد تک نفی میں ہے کیونکہ ہم سے کم ذہنی صلاحیت (آئی کیو)کے حامل ملک ہم سے کہیں آگے ہیں جیسا کہ انڈیا کا مجموعی آئی کیو لیول 83 اور ہمارا 84ہے لیکن انڈیا کئی شعبوں میں ہم سے بہت آگے ہے۔اسی طرح مراکش، بنگلہ دیش، مصر اور جنوبی افریقہ ہم سے کم یا برابر آئی کیو کے بادجو د آگے نکل گئے ہیں۔ڈنمارک میں سب سے زیادہ (1.56فیصد) سائنسد ان کام کر رہے ہیں، اس ملک کا مجموعی آئی کیو لیول 91ہے۔یورپ میں سب سے بہتر آئی کیو (105)فن لینڈکا ہے، لیکن وہ سائنسی اور معاشی ترقی میں دیگر یورپی ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے۔ انو ویشن کے حوالے سے فن لینڈ ساتویں ، سوئٹزرلینڈ پہلے اور ہم 107ویں نمبر پر ہیں ،اس فہرست میں بوٹسوانہ(89واں نمبر)، روانڈا(91واں نمبر)، ہنڈراس (103واں نمبر)، ایلسلواڈور (92 واں نمبر) ، نمیبیا (105 واں نمبر)اور گوئٹے مالا (106واں نمبر)بھی ہمیں پیچھے چھوڑ چکے ہیں ۔ سویڈن، امریکہ، یو کے، نیدرلینڈز، ڈنمارک، فن لینڈ، سنگاپور، جرمنی، سائوتھ کوریا، ہانگ کانگ، فرانس ، چین آئرلینڈ، جاپان، کینیڈا، لگزمبرگ ، آسٹریا اور ناروے پہلے بیس نمبروں پر ہیں۔
ذرا پڑھیے، عالمی سائنس میں ہم سائنسی مضامین کے حوالے سے کہاں کھڑے ہیں؟کیونکہ تحقیق ہو گی تو وہی مضامین میں بھی نظر آئے گی۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پہیہ الٹا گھوم رہا ہے۔ ’’نیچر انڈیکس بائیو میڈیکل سائنسز ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ’’ 50ممالک کی فہرست میں پاکستان نے اس شعبے میں 2003ء سے 2016ء تک شاندار ترقی کی تھی،بعض برسوں میں 32فیصد تک ترقی کی رفتار کسی بھی ملک سے زیادہ تھی۔ہمارے ہاں سائنسی تحقیق پر شائع شدہ مضامین کی تعداد 1421 سے بڑھ کر 9181 سالانہ ہو گئی تھی۔تیز ترین ترقی کرنے والے ممالک میں ہم اگلی صف میں شامل تھے۔ ہمارے بعد چوتھے نمبر پر تیز ترین انڈونیشیاء (28 فیصد ) ، ملیشیاء(22فیصد)، ایران (21فیصد) ، کولمبیا (19 فیصد ) کا نمبر آتا تھا۔جب ہم 32فیصد کی رفتار سے ترقی کر رہے تھے تو امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں اس شعبے میں ترقی کا تناسب دو فیصد تھا۔ لیکن یہ دو فیصد بھی بہت زیادہ تھا کیونکہ کل تعداد 41 لاکھ تھی۔اس تیز رفتار ترقی میں ہم یورپ اور چین سے بھی آگے تھے لیکن اب کافی نیچے آ چکے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟

اب اعلیٰ سائنسی تحقیق کی اشاعت میں امریکہ سب سے آگے ہے لیکن چین بھی اس افق پر تیزی سے ا بھرنے والا ملک ہے ،وہ امریکہ سے یہ منصب چھیننے کے قریب ہے۔امریکہ نے 2017ء کے مقابلے میں 2018ء میں سائنسی تحقیق سے متعلق مضامین کی اشاعت میں 3فیصد زوال کیا ہے۔امریکہ کو سہاراہاورڈ یونیورسٹی، سٹین فورڈ یونیورسٹی ،نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اور ایم آئی ٹی نے دیا ہے۔تمام سائنسی مضامین میں 50فیصد حصہ ان چند اداروں کا ہوتا ہے۔ چین کے کئی اہم ادارے (چائنیز اکیڈمی آف سائنسز ،پیکنگ یونیورسٹی،نانجنگ یونیورسٹی،یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آف چائنااور سن ژوا یونیورسٹی)اس سمت پیش پیش ہیں اور اس ملک نے سائنسی مضامین کی اشاعت میں 15فیصد ترقی کی ہے۔

جرمنی نے 2.6فیصد اوریو کے نے 4.0 زوال کیا ہے۔ کیمبرج، امپیرئل کالج آف لندن اور یونیورسٹی آف لندن جیسے نامور ادارے بھی سائنسی تحقیقی مضامین کی اشاعت میں برتری نہ دلا سکے ۔جاپان میں اس شعبے میں 6.1فیصد،فرانس میں 7.4 فیصد ، کینیڈا میں 2.7 فیصد، سوئٹزرلینڈ میں1.0 فیصد اورسائوتھ کوریا میں 1.8فیصدزوال آیا ہے۔مغرب میں اس شعبے میں سب سے زیادہ زوال آئر لینڈ میں آیا جو 18فیصدہے البتہ آسٹریلیا میں 7.5فیصد ترقی ہوئی ہے۔ اس فہرست میں انڈیازوال پذیر ہونے کے بعد 13ویں نمبر پرآ گیا ہے، پاکستان 44ویں نمبر پر ہے۔پاکستان میں سائنسی تحقیق پر مبنی مضامین کی اشاعت میں 33فیصد تک زوال آیا ہے۔ہم سے کم تر درجے پر رومانیہ، یوکرائن، لکزمبرگ،کولمبیا،امارات اور ویتنام ہیں۔

کامیابی اور آئی کیو سے متعلق سوالوں پر نفسیات اور مائنڈ کے کچھ ماہرین نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ ’’ ذہانت کی بھی کئی قسمیں ہیں اور جو ممالک یا خاندان اپنی نئی نسل کو ذہانت کے متعلقہ شعبے کی تعلیم دلوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہی بچے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ ترقی کرتے ہیں۔وہی اپنے سماج کو بھی آگے بڑھاتے ہیں۔ اس سلسلے میں دماغی ماہرین بچوں کی ذہانت پر تحقیق کے ذریعے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ذہانت کی اقسا م کتنی ہو سکتی ہیںاو ریہ اگر والدین چاہیں تو کیا وہ کسی ایک قسم کو ترقی دے سکتے ہیں ، کسی ایک قسم کو بہتر پا کر بچے کے مستقبل کا تعین کر سکتے ہیں یا نہیں؟سائنسدانوں نے سوال کا جواب اثبات میں دیا ہے۔اور یہی ہمارا مسئلہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحول یعنی قدرت میں پائی جانے والی ہر شے کو شناخت کرنے کی صلاحیت بچوں میں ودیعت کر دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر بچے کو ہر رنگ ایک جیسا دکھائی دیتا ہے۔ایسا نہایت کم ہوتا ہے کہ کسی رنگ کو نیلا ،نیلا نظر نہ آئے۔ یا یہ کہ میں جس چہرے کو جیسا دیکھ رہا ہوں دوسرے کووہ کسی اور شکل کا دکھائی دے۔ بیمار ی کی صورت میں تو ایساہو سکتا ہے لیکن صحت مند کیفیت میں ناممکن ہے۔وہ کئی برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ ’’یہ ہو سکتا ہے کہ رنگوں کی شناخت کی صلاحیت کسی میں طاقتور ہو او رکوئی انسانی ’اجسام‘ کے بارے میں زیادہ ذہین ہو۔ کسی میں نیچر کو پہچاننے کی صلاحیت زیادہ ہو اور کوئی زبان و بیان کی زیادہ صلاحیت کا حامل ہویعنی 8 اقسام کی ذہانتوں کی سطح ہرشخص میں کم یا زیادہ ہوسکتی ہے‘‘۔
کثیر الجہتی ذہانتوں کایہ نظریہ ہاورڈ یونیورسٹی میں ’’ڈویلپمنٹ سائیکو لو جسٹ ‘‘ہوروڈ گارڈنر (Howard Gardner) نے پیش کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہر شخص کا آئی کیو ہر کام میں ایک جیسا نہیں ہوتا، وہ کسی کام میں تیز اور کسی میں کمزور ہو سکتا ہے‘‘۔انہوں نے اپنی کتاب ’’ فریمز آف مائنڈ ‘‘ (1983ء ) میں ذہانت کو 8 ذیلی اقسام میں تقسیم کرتے ہوئے ’’کثیر الجہتی ذہانت‘‘ (ملٹی پل ذہانت) کے نظریے پر زور دیا تھا۔ انہوں نے کوئی نئی تھیوری پیش نہیں کی تھی بلکہ پہلے سے نظریے کی مزید وضاحت کر دی تھی۔ بعض ماہرین نے کچھ اقسام کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کے بعد نام بدل دیئے لیکن صلاحیتوں کی اقسام وہی رہیں۔

کارنل یونیورسٹی میں (Cornell University) ’’انسانی ترقی ‘‘ کے پروفیسر رابرٹ جے سٹین برگ ایک نئی ذہانت کے ساتھ منظر عام پر آئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اب تک نفسیاتی ماہرین نے جسے اپنی فہرست میں شامل ہی نہیں کیا وہی ذہانت سب سے تیز ہوتی ہے ۔انہوں نے قرار دیا کہ ’’ہر فرد اپنی کامیابی کو سب سے زیادہ محسوس کرتا ہے، وہ اپنی کامیابی کی تمام باریکیوں سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔ ذہانت کو مد نظر رکھتے ہوئے پیشے کا انتخاب کرنے کی صورت میں کامیابی اور ترقی کے امکانات کہیں زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔اور یہ کہ بچے میں ذہانیت کی جو قسم زیادہ تیز ہو گی وہ اسی شعبے میں قدم رکھنے کی صورت میں دلچسپی بھی لے گا۔ ‘‘

ماہرین کا خیال ہے کہ بچہ ناکام ہی اس وقت ہوتا ہے جب اس میں ذہانت ایک قسم کی ہوتی ہے اور اسے بھیج دوسری ذہانت والے شعبے میں جاتا ہے۔ اگر کسی میں ’’ انسانی جسم کی مہارت زیادہ تیز ہے تو وہ نہایت ہی اچھاسرجن، سپاہی، باڈی بلڈر، ایتھلیٹ اور ڈانسر بن سکتا ہے۔لیکن اگر آپ اسے ماہر لسانات بنانے کی کوشش کریں گے تو شائد وہ ناکام ہو جائے۔ وہ بچہ ہر لحاظ سے ذہن ہے لیکن ذہانت سے مختلف شعبے میں قدم رکھنا رکاوٹ بن گیا ۔ اسی طرح تصاویر ،محل و وقوع کی مہارت رکھنے والے ماحول کی بہتر سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ایسے بچے کو ڈاکٹر بنانے کی سوچنا بھی حماقت ہو گا۔دیکھنے اور زمین کے بارے میں مہارت رکھنے والے افرادکے لئے فنون لطیفہ کے شعبے اچھے رہیں گے ۔

جبکہ زبان دانی ، لفظوں کی مہارت رکھنے والے بچے الفاظ، زبان و بیان ، تحریر و تقریر انجوائے منٹ، کتاب بینی، عوامی اجتماعات میں اچھی تقریر، سفارت کاری ، قائل کرنے کی قوت والے شعبے (جیساکہ وکالت) میں بہتر پرفارم کر سکتے ہیں۔منطق اور ریاضی کی مہارت سے توآپ واقف ہی ہیں۔یہ افراد مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے مالال مال ہوتے ہیں۔ریاضی،پیچیدہ امور کی سمجھ رکھتے ہیں اور ایسی گتھیوں کو سلجھا سکتے ہیں۔ موسیقی ، جسمانی حرکت، ایک دوسرے سے بات چیت اور دوسروں کو سمجھنے کی حسیں الگ الگ ہیں۔بچوں کو ان کی مہارت کے شعبوں میں بھیج کر ہی آپ ترقی کر سکتے ہیں۔

آئی کیو کا نوبل انعام سے کوئی تعلق ہے ؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’دنیا بھر میں کل 80لاکھ فل ٹائم محققین موجود ہیں جو آبادی کا 0.1 ہیں۔ ذہانت اپنی جگہ اور ایجادات اپنی جگہ ہیں ۔ دونوں کا آپس میں کوئی تعلق ظاہر نہیں ہو سکا‘‘۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ آئی کیو میں نچلے درجے کے ممالک میں شامل ہے اس ملک کا مجموعی آئی کیو 98ہے لیکن نوبیل انعامات کی دوڑ میں اس کاکوئی ثانی نہیں یہ سب سے آگے ہے، وسائل کی فراہمی اپنی جگہ ،لیکن کہا جا رہا ہے کہ امریکہ میں بچوں کو ان کی مہارت کے شعبوں میں بھیجنے جانے کے باعث امریکہ سب کوپیچھے چھوڑ گیا ہے۔ذیل میں آئی کیو اور نوبیل انعام کے فرق کو ظاہر کیاجا رہا ہے۔ ذرا پڑھیے۔


سنگاپور: آئی کیو میں پہلا، نوبیل انعام میں73 واں
ہانک کانگ : آئی کیو میں تیسرا، نوبیل میں 46واں
سائوتھ کوریا: آئی کیو میں چوتھا، نوبل میں 46واں
جاپان : آئی کیو اورنوبیل انعام میں چھٹا ۔
سوئٹزر لینڈ : آئی کیو میں 11واں ،نوبیل میں چھٹا
امریکہ :آئی کیو میں 28واں، نوبیل میں پہلا
برطانیہ : آئی میں 17واں، نوبیل میں دوسرا
چین : آئی کیو میں دوسرا،نوبیل میں 21واں
روس : آئی کیو میں 32واں اور نوبیل میں 8واں
سویڈن :آئی کیو میں 22واں، نوبیل میں 5واں
فرانس : آئی کیو میں 24واں ، نوبیل میں چوتھا۔

ڈاکٹر گارڈنر کا کہنا ہے کہ ’’عمومی طور پرسکولوں اورکالجوں میں ماہرین زبان و بیان اور منطق اور ریاضیات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں، یہ کافی نہیں ، آئی کیو سے بھی یہ معلوم نہیں کیا جا سکتا کہ بچے کو کس قسم کی تعلیم سے بہرہ ور کرنا زیادہ مناسب رہے گا۔کیونکہ آئی کیو مجموعی ذہانت کی عکاسی کرتا ہے ،اس کی شاخوں کے بارے میں قطعی خاموش ہے۔ مثال کے طور پر بہت زیادہ آئی کیو ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسے جس شعبے میں بھی بھیج دیاجائے وہ کامیابی کے جھنڈے گاڑ دے گا۔ایسا ضروری نہیں۔ فنون لطیفہ، موسیقی، طبیعات ، سرمایہ کاری،ڈیزائنز ، بزنس ، تھیراپی، ماحول، نیچر یا کسی دوسری چیز کی جانب وہ کس قدر لگائورکھتا ہے ،یہ زیادہ اہم ہے۔ ہم اسے نظر اندا ز کر رہے ہیں۔ایک باراس پر عمل کر کے دیکھئے، آپ کی بیٹی یا بیٹا کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا۔ بچوں کو سکولوں میں اس سمت میں مدد نہیں ملتی۔ ایسے بچوں کو ’’ نالائق‘‘،کمزور، دوسروں سے پیچھے، توجہ کی کمی کہہ کر نکال دیا جاتا ہے‘‘ ۔ نیوٹن کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا، بل گیٹس اور مارک زکر برگ نے بھی یہی ماحول بھگتا۔ انہیں جس قسم کی تعلیم دی جا رہی تھی وہ ان کی ذہانت کی ذیلی شاخ سے متصادم تھی۔ کیونکہ مخصوص تعلیم کے شعبے میں ان کی منفرد ذہانت اپنا رنگ دکھا ہی نہیں سکتی تھی۔

خود کی سمجھ رکھنے والے کو ’’Intrapersonal intelligence‘‘ کا ماہر کہا جاتا ہے۔ اپنی خوبیوں خامیوں کا ادراک کرتا ہے، اسی طرح نیچر کا ماہر (Naturalist intelligence) کہلاتا ہے ۔ان افراد میں نیچر کی سمجھ زیادہ ہوتی ہے لہٰذا ہائیکنگ، کیمپنگ باغبانی، مرغبانی اچھے شعبے ہو سکتے ہیں ۔

زمینی ذہانت (Spatial intelligence ) پائلٹ،فیشن ڈیزائنر،آرکیٹکٹ ، آرٹسٹ، جسمانی عضلاتی حس (Bodily-kinesthetic intelligence)بہتر شعبے :سرجن ، ڈانسر،تھیرپسٹ، ٹیکنیکل ماہر ، بلڈر،اداکار۔

موسیقی (Musical intelligence)بہتر شعبے :گلوکار، موسیقار، ڈی جے، فلمی شاعر، کمپوزر، لسانی (Linguistic intelligence) بہتر شعبے :شاعر،ناول نگار، صحافی، مدیر، قانون دان، پروفیسرلسانیات۔

منطقی، ریاضی (Logical-mathematical intelligence)بہتر شعبے : کمپیوٹر پروگرامنگ، اکنانومسٹ، اکائوننٹ، ریاضی دان، سائنسد ان، انجینئر ۔

خود کی پہچان (Interpersonal intelligence) بہتر شعبے :ٹیم لیڈر، سفارت کار، سیاست دان، کمپین کا ماہر،نفسیات دان،سیلز مین۔

افراد کے درمیان ذہانت(Intrapersonal intelligence) بہتر شعبے :تھراپسٹ،کونسلر، نفسیات دان،سرمایہ لگاکر کمپنی بنانے کی صلاحیت، مفکر۔

فطرت پسندی(Naturalistic intelligence) بہتر شعبے :جیالوجی ، کاشتکاری، باٹنی، پھولوں کا بزنس۔

تحریر: صہیب مرغوب
 

Advertisement