رواں مالی سال: کل اخراجات کا 51 فیصد حصہ قرض و سود کی ادائیگی میں صرف ہوا

Published On 03 June,2023 06:14 pm

لاہور: (دنیا انویسٹی گیشن سیل) رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ (جولائی تا مارچ) کے عرصے میں وفاقی حکومت کی جانب سے 6 ہزار 978 ارب 17 کروڑ 90 لاکھ روپے کے اخراجات کیے گئے، جن میں سے 3 ہزار 582 ارب 44 کروڑ 70 لاکھ روپے قرض و سود کی مد میں ادا کیے گئے۔

یوں رواں مالی سال وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا 51 فیصد حصہ قرض و سود کی ادائیگی میں صرف ہوا، وزارت خزانہ کی دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران ایف بی آر کی جانب سے 5 ہزار 155 ارب 90 کروڑ 60 لاکھ روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا گیا جبکہ 6 ہزار 396 ارب 58 کروڑ 20 لاکھ روپے کا مجموعی ریونیو اکٹھا کیا گیا۔

جولائی 2022ء سے مارچ 2023ء کے عرصے میں وفاقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی قرض و سود کی ادائیگی ایف بی آر کے ریونیو کا 69 فیصد جبکہ وفاقی حکومت کے مجموعی ریونیو کا 56 فیصد ہے، ہر گزرتے سال کے ساتھ قرض و سود کی ادائیگیوں کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے آخری مالی سال 2022ء کے دوران وفاقی حکومت کے کل اخراجات 9 ہزار 350 ارب 8 کروڑ 90 لاکھ روپے تھے، اس سال حکومت کی جانب سے 3 ہزار 182 ارب 43 کروڑ 20 لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی، جو کہ کل اخراجات کا 34 فیصد بنتی ہے، اسی طرح گزشتہ مالی سال ایف بی آر کی جانب سے 6 ہزار 142 ارب 80 کروڑ 20 لاکھ روپے کے ٹیکس اکٹھے کیے گئے تھے جبکہ 7 ہزار 328 ارب 22 کروڑ 30 لاکھ روپے کا مجموعی ریونیو اکٹھا کیا گیا، مالی سال 2022ء کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے قرض و سود کی مد میں کی جانے والی ادائیگی ایف بی آر کی ٹیکس کلیکشن کا 52 فیصد جبکہ وفاقی حکومت کے مجموعی ریونیو کا 43 فیصد تھا۔

اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت کے آخری مالی سال 2018ء کے دوران وفاقی حکومت نے 4 ہزار 704 ارب 30 کروڑ 10 لاکھ روپے کے اخراجات کیے جبکہ اس سال حکومت کی جانب سے قرض و سود کی مد میں 1 ہزار 499 ارب 92 کروڑ 20 لاکھ روپے ادا کیے گئے، جو کہ حکومت کے کل اخراجات کا 32 فیصد تھا۔

سال 2018ء میں ایف بی آر کی جانب سے 4 ہزار 65 ارب 78 کروڑ 80 لاکھ روپے کی ٹیکس کلیکشن کی گئی جبکہ وفاقی حکومت کا مجموعی ریونیو 4 ہزار 696 ارب 16 کروڑ 60 لاکھ روپے رہا، یوں، سال 2018ء میں وفاقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی قرض و سود کی ادائیگی ایف بی آر ٹیکس کلیکشن کا 37 فیصد جبکہ وفاقی حکومت کی مجموعی ریونیو کا 32 فیصد تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے اپنے آخری مالی سال 2013ء کے دوران 3 ہزار 441 ارب 1 کروڑ 60 لاکھ روپے کے اخراجات کیے جبکہ اس سال وفاقی حکومت کی جانب سے قرض و سود کی مد میں 990 ارب 96 کروڑ 70 لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی جو کہ حکومت کے کل اخراجات کا 29 فیصد تھی۔ اسی طرح مالی سال 2013ء کے دوران ایف بی آر کی جانب سے 2 ہزار 48 ارب 50 کروڑ 90 لاکھ روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا گیا جبکہ وفاقی حکومت کی مجموعی آمدن 2 ہزار 775 ارب 26 کروڑ 70 لاکھ روپے رہی۔

یوں، مالی سال 2013ء کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی قرض و سود کی ادائیگی ایف بی آر کی ٹیکس کلیکشن کا 48 فیصد جبکہ وفاقی حکومت کی مجموعی آمدن کا 36 فیصد تھا، وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ مالی سالوں کے دوران کی جانے والی قرض و سود کی ادائیگی کا موازنہ اگر ایف بی آر کی ٹیکس کلیکشن سے کیا جائے، تو ہر گزرتے سال کے ساتھ قرض و سود کی ادائیگی کا ہدف ایف بی آر کی مجموعی ٹیکس کلیکشن کے قریب پہنچ رہا ہے۔

مالی سال 2008ء میں قرض و سود کی ادائیگی ایف بی آر کی مجموعی آمدن کا 28 فیصد اور مالی سال 2013ء میں 48 فیصد رہی، مالی سال 2018ء میں 37 فیصد، مالی سال 2022ء میں 52 فیصد جبکہ رواں مالی سال 2023ء کے ابتدائی 9 ماہ (جولائی تا مارچ) کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی قرض و سود کی ادائیگی ایف بی آر کی مجموعی ٹیکس آمدن کا 69 فیصد رہی جو اب تک کا ریکارڈ اضافہ ہے۔

ہر گزرتے وقت کے ساتھ وفاقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی قرض و سود کی ادائیگی اور ایف بی آر کی ٹیکس آمدن کا فرق کم ہوتا جا رہا ہے، ان حالات میں ضروری ہے کہ حکومت ایف بی آر کا ٹیکس نیٹ بیس بڑھانے کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کی ٹیکس آمدن میں اضافے کیلئے نئے دروازے تلاش کرے جس کے تحت ایف بی آر کی مجموعی ٹیکس آمدن کو بڑھایا جا سکے۔

تشویش ناک بات یہ ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے بروقت اقدامات نہ لیے گئے تو مستقبل میں وفاقی حکومت کی جانب سے قرض و سود کی ادائیگی اور ایف بی آر ٹیکس کلیکشن کی مد میں حکومتی آمدن کی شرح برابر ہونے کا اندیشہ ہے، یاد رہے کہ معاشی ماہرین کے مطابق اگلے مالی سال 2024ء میں پاکستان کو قرض و سود کی ادائیگی کی مد میں 8 ہزار 400 ارب روپے کی ضرورت ہو گی، جو کہ رواں مالی سال 2023ء کے طے شدہ ہدف سے 4 ہزار 450 ارب روپے زیادہ ہوں گے۔

مالی سال 2023ء میں قرض و سود کی مد میں کی جانے والی ادائیگی کا ہدف 3 ہزار 950 ارب روپے طے کیا گیا تھا، قرض و سود کی ادائیگیوں میں اضافہ ایسے ہی بڑھتا گیا تو حکومت کے لیے دفاعی اخراجات، پنشن، ترقیاتی سکیموں، سبسڈی سمیت دیگر اخراجات کیلئے رقم کا بندوبست کرنا مشکل ہو جائے گا اور بالآخر حکومت کو قرض و سود کے علاوہ اپنے دیگر تمام اخراجات پورے کرنے کیلئے مزید قرضے لینا ہوں گے۔

Advertisement