ولنگٹن: (ویب ڈیسک) نیوزی لینڈ میں ہونے والے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 93 فیصد لوگوں نے جعلی خبروں سے متعلق سنا اور تقریباً آدھے سے زائد لوگوں نے ان خبروں کو آگے پھیلانے پر تشویش کا اظہار کیا۔
تفصیلات کے مطابق جب بات ہوتی ہے کورونا وائرس سے جنم لینے والی وبا کووڈ 19 کی تو اس بارے میں حقائق جاننے کے لیے بھی ہمیں خبروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بالخصوص اس وقت معلومات کے حصول کے لیے میڈیا کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے، جب ہمارا کوئی قریبی رشتہ دار یا دوست اس وبا کا شکار نہیں ہوا ہے، کیونکہ اس صورت میں ہم اس تکلیف اور تجربے کو ذاتی طور پر سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہو سکتے۔
خبروں سے ہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس عالمی وبا کی وجہ سے کتنے افراد متاثر یا ہلاک ہوئے، یہ کس قدر موزی ہے اور اس کے معیشت پر کيا اثرات پڑ رہے ہیں اور یہ کہ کتنے لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف ہم گھروں میں قید ہیں اور تصاویر اور ویڈیوز میں بیابان سڑکوں اور مارکٹیوں کے امیجز دیکھ رہے ہیں۔ کبھی کبھار خریداری کی غرض سے باہر جاتے ہوئے ہمیں اس صورتحال کا صرف حسیاتی تجزبہ ہی ہو سکتا ہے۔
اس صورتحال میں نیوز ادارے ایک مرتبہ پھر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ صرف اسی لیے نہیں کہ یہ نشریاتی ادارے ہمیں مطلع کر رہے ہیں کہ حکومتی پالیسیاں کیا ہیں اور ہمیں صورتحال میں کیسے ردعمل ظاہر کرنا چاہیے بلکہ خبروں کی طرف متوجہ ہونے کی دیگر کئی وجوہات بھی ہیں۔
اس صورتحال میں میڈیا اداروں سے رجوع کرنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے۔ آن لائن صارفین میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھا جا رہا ہے جبکہ ٹیلی وژن دیکھنے والوں کی شرح بھی بڑھی ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا ہمیں قابل بھروسہ معلومات موصول ہو رہی ہیں؟
دوسری طرف سوشل میڈیا جعلی خبروں میں ڈوب چکا ہے۔ صرف اس بارے میں ہی ہزاروں آرٹیکلز اور ویڈیوز موجود ہیں کہ لہسن کس طرح کورونا وائرس کا شافی علاج ممکن بنا سکتا ہے۔ یہ پلیٹ فارمز حقیقی طور پر جھوٹی خبریں و معلومات پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور یہ بات لوگوں کی زندگی کو خطرات میں ڈال سکتی ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق نیوزی لینڈ میں ہونے والے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 93 فیصد لوگوں نے جعلی خبروں سے متعلق سنا اور تقریباً آدھے سے زائد لوگوں نے ان خبروں کو آگے پھیلانے پر تشویش کا اظہار کیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق سروے کرانے والے کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مارٹن کوکر کا کہنا ہے کہ لوگ جعلی خبروں کو تیزی سے پھیلا رہے ہیں اور یہ کوئی نیا رحجان نہیں ہے۔ تاہم موجودہ دورہ میں یہ بہت ہی آسان ہے کہ لوگ ان خبروں کو آن لائن شیئر کریں۔
سروے کے مطابق نیوزی لینڈ میں 10 میں سے 8 لاکھ سوشل میڈیا پر جعلی خبریں دیکھتے ہیں، آدھے لوگوں نے جعلی خبروں کو آن لائن خبروں کی ویب سائٹس پر دیکھا جبکہ 40 فیصد لوگوں نے اسے اخبارات میں پڑھا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق 72 فیصد نوجوانوں کی تعداد یقین کرتی ہے کہ جعلی خبروں کو پھیلانے میں بزرگ افراد شامل ہوتے ہیں، 66 فیصد لوگ (جن کی عمر 50 سال سے زائد ہوتی ہے) جعلی خبروں پر یقین کر لیتے ہیں۔