کینبرا: (ویب ڈیسک) 5 جی ٹیکنالوجی کے حوالے سے لوگوں میں خدشات پائے جاتے ہیں کہ صحت پر مختلف مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں تو تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس طرح کے خدشات اور خبریں جعلی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ سال مغربی ممالک میں سوشل میڈیا پر یہ افواہیں گردش کرتی رہی تھیں کہ 5 جی کے ریڈیو سگنلز کورونا وائرس پھیلانے کا بھی کام کررہے ہیں جس کے بعد متعدد شہروں میں 5 جی ٹاور کو آگ بھی لگائی گئی، حالانکہ ان افواہوں میں کوئی صداقت نہیں تھی۔
اسی طرح 5 جی ٹیکنالوجی کے حوالے سے لوگوں میں یہ خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ اس سے صحت پر مختلف مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ تو اس حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی طبی تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں۔
آسٹریلین ریڈی ایشن پروٹیکشن اینڈ نیوکلیئر سیفٹی ایجنسی (اے آر پی اے این ایس اے) نے سوائن برنی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے ساتھ مل کر 5 جی ریڈیو لہروں کے حوالے سے ہونے والی 138 تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔ اس ٹیم نے تحفظ کے حوالے سے ہونے والی مزید 107 تحقیقی رپورٹس کا بھی تجزیہ کیا۔ دونوں تجزیوں میں یہ دیکھا گیا کہ 5 جی اور اس سے ملتی جلتی ریڈیو لہروں کے خلیات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ماہرین نے دریافت کیا کہ 5 جی لہروں سے صحت یا خلیات پر کوئی بھی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ اے آر پی اے این ایس اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر کین کریپیڈس نے بتایا کہ ایک تجزیے کے نتائج میں ایسے کوئی شواہد نہیں مل سکے جن سے عندیہ ملتا ہو کہ کم سطح کی ریڈیائی لہریں جیسی 5 جی نیٹ ورک میں استعمال ہوتی ہیں، انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جن تحقیقی رپورٹس میں حیاتیاتی اثرات کو رپورٹ کیا گیا ہے، ان میں سے بیشتر میں لہروں کے اثرات جانچنے کے غیر معیاری طریقہ کار کو استعمال کیا گیا۔
محققین نے کہا کہ 5 جی اثرات کی مانیٹرنگ کے لیے طویل المعیاد تحقیق پر کام ہونا چاہیے، جس کے لیے تمام تر سائنسی پیشرفت کو استعمال کیا جائے، مگر اب تک ایسے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے جو 5 جی سے جڑے مضحکہ خی دعوؤں کی حمایت کرتے ہوں۔
ڈاکٹر کین نے کہا کہ ہمارا مشورہ ہے کہ مستقبل میں تجرباتی تحقیقی رپورٹس میں مخصوص امور پر زیادہ توجہ دینی چاہیے جبکہ آبادی پر طویل المعیاد طبی اثرات کی مانیٹرنگ جاری رکھی جانی چاہیے۔
جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران 5 جی ٹیکنالوجی سازشی خیالات کا حصہ بنی رہی ہے۔
حالانکہ اس موقع پر برطانوی حکومت کی جانب سے شیئر کی گئی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ فائیو جی کورونا وائرس کو پھیلانے کا باعث نہیں، اس حوالے سے کی جانے والی تحقیق میں اس بات کے ثبوت نہیں ملے کہ مذکورہ ٹیکنالوجی وبا پھیلانے سمیت دیگر بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔
اس نئی تحقیق میں ایک بار پھر یقین دہانی کرائی گئی کہ اس نئی ٹیکنالوجی سے انسانی صحت پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔