بیجنگ: (روزنامہ دنیا) دنیا کے گرم علاقوں میں وائرس کے پھیلنے کی رفتار دیگر کے مقابلے میں نسبتاً سست ہے 17 ڈگری سینٹی گریڈکے علاقوں میں زیادہ پھیلتا، امریکا کے گرم علاقوں میں کم پھیلا پیشگوئی نہیں کرسکتا اتنی طاقت سے خزاں یا سردیوں میں واپس نہیں لوٹے گا، سائنسدان
تحقیق میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ گرم اور مرطوب موسم کورونا وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرسکتا ہے ۔گزشتہ ہفتے چین میں ایک تحقیق میں درجہ حرارت میں اضافے اور نئے نوول کورونا وائرس کے پھیلنے کی رفتار میں کمی کے بارے میں جائزہ لیا گیا تھا۔اب یورپ اور امریکا میں بھی گرم موسم اور وائرس کے پھیلنے کی رفتار کے درمیان تعلق کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ قدرتی وبا کی رفتار میں کمی لانے میں مدد دے سکتا ہے ۔امریکا کے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی ابتدائی تحقیق میں بتایا گیا کہ گرم علاقوں میں رہنے والی برادریوں میں بظاہر کورونا وائرس کے پھیلنے کی رفتار دیگر مقامات کے مقابلے میں نسبتاً سست ہے ۔محققین نے دریافت کیا کہ کورونا وائرس کے زیادہ پھیلاؤ والے علاقے وہ ہیں جہاں درجہ حرارت کم تھا یعنی 3 سے 17 ڈگری سینٹی گریڈ۔اگرچہ وہ ممالک جہاں اس وقت موسم گرما چل رہا ہے ، وہاں بھی کورونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، مگر 18 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد والے مقامات میں ان کی تعداد عالمی کیسز کے 6 فیصد سے بھی کم ہے ۔ پاکستان میں ان دنوں گرمیوں کا آغاز ہو رہا ہے ، اور عموماً درجہ حرارت 25 اور 30 سینٹی گریڈ کے درمیان ہوتا ہے جبکہ آنیوالے دنوں میں گرمی کی شدت مزید بڑھ جائے گی جو اس حوالے سے خوش آئند بھی ہے ۔تحقیق میں شامل پروفیسر قاسم بخاری نے بتایا کہ جہاں درجہ حرارت کم ہوتا ہے وہاں کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے ، آپ یہ رجحان یورپ میں دیکھ سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا درجہ حرارت کے عنصر کا عندیہ امریکا میں بھی ملتا ہے جہاں جنوبی ریاستیں جیسے ایریزونا، فلوریڈا اور ٹیکساس میں واشنگٹن، نیویارک اور کولوراڈو کے مقابلے میں وائرس پھیلنے کی رفتار سست نظر آتی ہے ۔
امریکا میں گلوبل ایڈز کوآرڈی نیٹر اور نئے کورونا وائرس کیلئے قائم امریکی ٹاسک فورس کی رکن ڈاکٹر ڈیبورا بریکس نے ایک بریفنگ کے دوران بتایا کہ عام طور پر نومبر سے اپریل کے دوران فلو کے زیادہ کیسز سامنے آتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ رجحان 2002 کے سارس کورونا وائرس کی وبا کے دوران بھی نظر آیا تھا، تاہم ان کا کہنا تھا ابھی یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ نئے کورونا وائرس کے حوالے سے بھی ایسا دیکھنے میں آئے گا یا نہیں۔سپین اور فن لینڈ کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق میں دریافت کیا کہ خشک ماحول اور 2 سے 10 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کے دوران یہ وائرس تیزی سے پھیلتا ہے ۔ چین میں ہونیوالی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ چینی حکومت کی جانب سے وبا کی روک تھام کیلئے جارحانہ اقدامات کرنے سے قبل ایسے شہر جہاں درجہ حرارت زیادہ اور ہوا میں زیادہ نمی تھی، وہاں وائرس کے پھیلنے کی شرح دیگر کے مقابلے میں سست تھی۔مگر ان میں سے کسی بھی تحقیق کا جائزہ دیگر سائنسدانوں نے ابھی تک نہیں لیا اور امریکا کے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے تسلیم کیا ہے کہ عناصر جیسے سفری پابندیاں، سماجی فاصلے کے اقدامات، ٹیسٹوں کی دستیابی اور ہسپتالوں کا بوجھ ممکنہ طور پر مختلف ممالک میں کیسز کی تعداد پر اثرانداز ہوئے ۔ان کا کہنا تھا موسم اور کورونا وائرس کے درمیان تعلق پالیسی سازوں اور عوام کیلئے اطمینان کا باعث نہیں ہونا چاہیے ،ہمیں اب بھی ٹھوس احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے ، گرم موسم ہوسکتا ہے کہ وائرس کو کچھ حد تک غیرفعال کردے ، مگر کم موثر پھیلاؤ کا مطلب اس کا خاتمہ نہیں ہوتا۔انہوں نے مزید کہا کہ گرم موسم ہوسکتا ہے کہ ہوا یا سطح پر کورونا وائرس کی بقا کو طویل دورانیے کیلئے مشکل بنادے مگر وہ پھر بھی گھنٹوں تک متعدی رہ سکتا ہے ۔درحقیقت سیزنل وائرسز جیسے انفلوائنزا اور موسمی نزلہ زکام بھی گرمیوں کے دوران مکمل طور پر غائب نہیں ہوتے ، بلکہ کسی نہ کسی حد تک لوگوں کے جسموں اور دنیا کے دیگر حصوں میں موجود رہتے ہیں، جہاں وہ دوبارہ پھیلنے کیلئے مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے امریکا میں ذیلی ادارے پان امریکن ہیلتھ آرگنائزیشن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جرباس باربروسا کے مطابق نئے کورونا وائرس پر موسم کے اثرات کے بارے میں تصویر واضح ہونے کیلئے مزید 4 سے 6 ہفتے درکار ہونگے ۔دنیا بھر میں مقامی سطح پر اس وائرس کے پھیلنے سے بھی یہ اشارہ ملتا ہے کہ گرم درجہ حرارت کے حوالے سے یہ وائرس ممکنہ طور پر زیادہ مزاحمت کرسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ممالک پر فوری اور جارحانہ اقدامات کیلئے زور ڈالا جارہا ہے تاکہ اس کی روک تھام کی جاسکے ۔ایم آئی ٹی کے سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ گرم موسم سے وائرس کے پھیلنے کی رفتار میں کمی کچھ ممالک میں بہت کم وقت کیلئے ہی ہوگی۔ان کا کہنا تھا اس وائرس کے بارے میں ابھی کچھ معلوم نہیں، کوئی پیشگوئی نہیں کرسکتا کہ گرم موسم کے بعد یہ وائرس دوبارہ اتنی طاقت سے خزاں یا سردیوں میں واپس نہیں لوٹے گا