لاہور: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں کورونا وائرس کا نئے ویرینٹ اومی کرون ہر طرف تیزی سے پھیل رہا ہے، جنوبی افریقا سے شروع ہونے والا یہ وائرس یورپ، برطانیہ، امریکا سمیت دیگر جگہوں پر پہنچ چکا ہے جبکہ پاکستان میں این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے گزشتہ روز بتایا تھا کہ اس وائرس کا پاکستان آنا ناگزیر ہے، آیئے ہم بتاتے ہیں کہ اس اومی کرون کی علامات کیا ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق افریقا کی ایک ڈاکٹر جو کورونا کے نئے ویریئنٹ کے پھیلاؤ کے متعلق سب سے پہلے خبردار کرنے والوں میں سے ہیں، نے کہا ہے کہ او می کرون کی علامات بہت ہی معمولی ہیں۔
ساؤتھ ایفریقن میڈیکل ایسوسی ایشن کی سربراہ ڈاکٹر اینجلیک کوٹزی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے کلینک میں 7 ایسے مریض دیکھے جن کی علامات ڈیلٹا سے مختلف تھیں۔ جو چیز انہیں سرجری تک لے آئی وہ انتہائی تھکاوٹ تھی، مریضوں کے پٹھوں میں ہلکا درد، خشک کھانسی اور گلے میں خراش تھی۔
ڈاکٹر کوٹزی نے کہا کہ جب سات مریضوں میں مختلف علامات ظاہر ہوئیں تو انہوں نے 18 نومبر کو محکمہ صحت کے حکام کو ایک کلینیکل تصویر جو ڈیلٹا سے مطابقت نہیں رکھتی‘ کے بارے میں آگاہ کیا۔
انہوں نے رائٹرز کو بتایا کہ اس مرحلے پر علامات کا تعلق عام وائرل انفیکشن سے تھا اور چونکہ ہم نے گذشتہ آٹھ سے 10 ہفتوں سے کووڈ 19 نہیں دیکھا تھا، اس لیے ہم نے ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم کورونا کی تیسری لہر کے دوران ڈیلٹا کے بہت سے مریض دیکھ چکے تھے اور یہ کلینیکل تصویر ان سے نہیں ملتی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر میں بہت ہلکی علامات تھیں اور کسی نے بھی اب تک مریضوں کو سرجری کے لیے داخل نہیں کیا تھا۔
ڈاکٹر کوٹزی نے وضاحت کی کہ ہم مریض کا علاج گھر پر کر سکتے تھے۔ وائرس 40 سال یا اس سے کم عمر کے افراد کو متاثر کر رہا ہے۔ جن کا میں نے علاج کیا ان میں سے اومی کرون کی علامات والے تقریباً 50 فیصد مریضوں کو ویکسین نہیں لگائی گئی تھی۔
گزشتہ اتوار کو، ڈاکٹر کوٹزی نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ برطانیہ میں دو افراد کے نئے وائرس سے متاثر ہونے کے بعد برطانیہ غیر ضروری طور پر گھبرا رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ آپ کے ملک میں پہلے سے موجود ہے اور آپ کو معلوم نہیں۔
ان کے تبصروں کے بعد، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے نئے وائرس کو باعث تشویش قرار دیتے ہوئے احتیاط کرنے پر زور دیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا تھا کہ ابتدائی رپورٹ کردہ انفیکشن یونیورسٹی کے طلبا میں تھے، لیکن اومی کرون کی شدت کو سمجھنے میں کئی دن یا ہفتے لگیں گے۔
ڈبلیو ایچ او نے مزید کہا کہ فی الحال ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے جس سے یہ تجویز کیا جا سکے کہ اومیکرون سے وابستہ علامات دیگر اقسام سے مختلف ہیں۔