پاکستان میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے غلط استعمال سے انفیکشنز میں اضافہ

Published On 19 December,2025 02:40 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) پاکستان میں اینٹی بائیوٹک دواؤں کے غیر ضروری یا نامکمل استعمال کی وجہ سے عوامی صحت پر شدید خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

ماہرین صحت کے مطابق پاکستان 204 ممالک میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت کے لحاظ سے 29 ویں نمبر پر ہے، ہر سال ملک میں اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس (AMR) کی وجہ سے تقریباً 200,000 سے 300,000 افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آئی سی یوز میں ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جن کے انفیکشن ملٹی ڈرگ مزاحم جراثیم کی وجہ سے ہیں، اگر یہ رجحان جاری رہا تو یہ جراثیم جلد موت کی بڑی وجہ بن سکتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بیکٹیریا، وائرس، فنگس یا پیراسائٹس وقت کے ساتھ دواؤں کے خلاف مزاحم ہو جاتے ہیں جس سے عام علاج بے اثر ہو جاتا ہے اور انفیکشن کا علاج مشکل یا بعض اوقات ناممکن ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر سعید خان، سربراہ مالیکیولر پیتھالوجی لیبارٹری، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے بتایا کہ اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس عالمی سطح پر خطرہ بن چکا ہے کیونکہ یہ بیماری کی مدت بڑھاتا ہے، علاج کی لاگت بڑھاتا ہے، پیچیدگیوں کے خطرات میں اضافہ کرتا ہے اور اموات کی شرح بڑھاتا ہے، اگر مؤثر کنٹرول اقدامات نہ کیے گئے تو 2050 تک دنیا میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت کی وجہ سے سالانہ 10 ملین اموات ہو سکتی ہیں۔

ڈاکٹر خان کے مطابق پاکستان میں اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس کا خطرہ زیادہ ہے کیونکہ یہاں بغیر نسخے دوائیں لینا، ادویات کا نامکمل یا غیر ضروری استعمال، ہسپتالوں میں ناقص انفیکشن کنٹرول، لائیو سٹاک اور پولٹری میں زائد اینٹی بائیوٹک، اور کمزور نگرانی و رپورٹنگ سسٹمز موجود ہیں۔

ملٹی ڈرگ مزاحم گرام، نیگیٹو انفیکشنز اور XDR ٹائیفائیڈ آئی سی یوز، نیو نیٹل، سرجیکل اور ٹی بی وارڈز سمیت انفیکشنز کے یونٹس میں بڑے چیلنج بن چکے ہیں، مطالعات کے مطابق بڑے ہسپتالوں میں آئی سی یو کے 40 سے 70 فیصد مریض ایسے انفیکشنز کا شکار ہیں، زیادہ تر گرام نیگیٹو بیکٹیریا جس سے علاج مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔