نواز شریف اور ان کے حامی حکومت کو جھٹکا لگانا چاہتے ہیں

Last Updated On 10 October,2019 09:28 am

لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) مسلم لیگ ن نے مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ میں شرکت کے حوالے سے اپنا مشاورتی عمل مکمل کر لیا ہے اور مارچ میں شرکت کے حوالے سے مجوزہ تجاویز آج کوٹ لکھپت جیل میں میاں شہباز شریف اپنے بڑے بھائی اور پارٹی کے قائد نواز شریف کو پیش کریں گے، نواز شریف کا فیصلہ ہی حتمی فیصلہ کہلائے گا۔

اس سے پہلے میاں نواز شریف اپنی جماعت کے ذمہ داران کو مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ کی ہدایات دے چکے تھے، بعد ازاں جماعت کے اندر اس حوالے سے پائی جانے والی کنفیوژن پر جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا گیا اور کہا گیا کہ ن لیگ کی احتجاجی مارچ میں شرکت کب اور کتنی کرنا ہوگی جس پر میاں شہباز شریف نے اپنی گزشتہ ملاقات میں میاں نواز شریف کو جماعت کے اندر پیدا شدہ صورتحال اور احتجاج پر دو آرا سے آگاہ کیا جس پر میاں نواز شریف نے مزید مشاورت کا کہا لہٰذا گزشتہ روز کے اجلاس میں مشاورتی عمل مکمل ہو گیا اور مارچ میں مشروط یا علامتی شرکت کے حوالے سے حتمی فیصلہ آج ہوگا، میاں شہباز شریف اس حوالے سے فیصلہ کا اعلان کریں گے۔

لہٰذا جائزہ اس امر کا لینا ہوگا کہ آخر نواز شریف کس بناء پر مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ کے حامی ہیں ؟ اور ن لیگ میں مارچ میں مکمل شرکت کے حوالے سے کنفیوژن کیا ہے ؟ مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات کیا ہیں ؟ اور کیا حکومت اس مارچ کو روک پائے گی ؟ جہاں تک ن لیگ کی جانب سے احتجاج کی حمایت اور نواز شریف کے فیصلے کا سوال ہے تو میاں نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتی کارکردگی کے باعث حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت پر بھرپور چوٹ لگنی چاہئے اور عوامی قوت کو بروئے کار لا کر حکومت کو ایکسپوز کرنا چاہئے اور ایسی صورتحال میں جب مولانا فضل الرحمن مکمل تیاری کر چکے ہیں اپنی جماعت کو فعال بنا چکے ہیں اور احتجاجی مارچ کیلئے مطلوبہ فضا انہیں مل چکی ہے تو ہمیں خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس حکومت سے نجات کیلئے اپنا بھرپور سیاسی کردار ادا کرنا چاہئے۔

لہٰذا یہی وقت ہے کہ آگے بڑھ کر حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہئے اور اس احتجاجی مارچ کے نتیجہ میں اگر حکومت گر نہیں سکے گی تو بچ بھی نہیں سکے گی۔ اس مؤقف کے حامی افراد میں سینیٹر پرویز رشید، ایاز صادق، جنرل قادر بلوچ، جاوید لطیف، کیپٹن (ر) صفدر، خرم دستگیر و دیگر کا نام لیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب اگر خود ان کی جماعت کے حالات کا گہرائی سے اندازا لگایا جائے تو ن لیگ کے بارے میں ایک بات طے ہے کہ یہ کوئی مزاحمتی جماعت نہیں اور نہ ہی دھرنوں پر یقین رکھتی ہے۔ اس کی تاریخ عوامی مذمت کے ذریعہ مقبولیت حاصل کرنا اور اس کے ذریعہ اقتدار پر پہنچا ہے۔ لہٰذا پارٹی کے اندر دوسری اور غالب رائے یہ نظر آ رہی ہے کہ نواز شریف کی ہدایات پر مولانا فضل الرحمن کے احتجاج میں شامل تو ہوا جائے مگر احتجاجی دھرنا میں شرکت نہ کی جائے اور کسی ایسے عمل کا حصہ ن لیگ کو نہیں ہونا چاہئے جس کے نتیجہ میں اسلام آباد میں غیر معمولی اور ہنگامی صورتحال طاری ہو اور اس کے نتیجہ میں ملک میں جاری جمہوری سسٹم کو خطرات لاحق ہوں۔

اس نکتہ نظر کے حامل افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو تو اپنے احتجاجی مارچ میں اتنی جلدی ہے کہ انہوں نے بڑی پارٹیوں کا انتظار کئے بغیر احتجاجی مارچ کا اعلان کر دیا لہٰذا اسی مارچ کے نتیجہ میں جو بھی صورتحال ہوگی اس کا فائدہ مولانا اٹھائیں گے اس سے بڑی جماعتوں کو کچھ نہیں ملے گا لہٰذا ہمیں خود سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے، دھرنوں اور احتجاج کے ذریعہ منتخب حکومتوں کو گرانے کے عمل کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہئے اس نکتہ نظر کے حامل افراد میں خود مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، احسن اقبال، خواجہ آصف، مریم اورنگزیب، راجہ ظفر الحق شامل ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی فیصلہ کی حمایت کی صورت میں ن لیگ کو اپنے عہدیداران اور کارکنوں کو متحرک بنانے کیلئے باقاعدہ مہم چلانا پڑے گی لیکن پھر بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ ن لیگ کے کارکن اور ذمہ داران اس احتجاجی مارچ میں کوئی بڑا مزاحمتی کردار ادا کر پائیں گے۔

جہاں تک مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ کے نتیجہ خیز ہونے کا سوال ہے تو اس حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو حکومت سے نجات ممکن نہیں البتہ وہ اسلام آباد میں ہنگامی اور غیر معمولی صورتحال طاری کر کے حکو مت کو دفاعی محاذ پر لے آئیں گے۔ حکومتی حکمت عملی پر نظر دوڑائی جائے تو اب تک کی صورت یہ ہے کہ حکومتی ذمہ داران اور وزرا نے مولانا فضل الرحمن اور ان کے احتجاجی مارچ کے خلاف گولہ باری تو شروع کر رکھی ہے بیانات داغے جا رہے ہیں مگر ان کے مارچ کے سیاسی توڑ کیلئے کچھ نہیں کیا جا رہا۔ واقفان حال تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ حکومت کو اس مارچ اور احتجاج سے زیادہ پریشانی نہیں، حکومتی ذمہ داران سمجھتے ہیں کہ حکومت کی نہیں ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام آباد، راولپنڈی میں ایسی کوئی صورتحال پیدا نہیں ہونے دیں گی جس سے ملک کی بدنامی ہو۔