لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) دنیا میں جاری کورونا کے خلاف لاک ڈاؤن اور ایمرجنسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت سرکارنے مقبوضہ کشمیر میں قیامت صغریٰ برپا کر رکھی ہے اور کوئی دن ایسا نہیں جا رہا جب بھارتی افواج نہتے اور مظلوم کشمیری نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ نہ کرتی ہو ان کے گھروں کو آگ لگانے اور مویشیوں کو ہلاک کرنے کا سلسلہ جاری نہ ہو۔ رواں ہفتہ کے دوران مقبوضہ وادی کے مختلف مقامات پر ایک درجن سے زائد نوجوانوں کو شہید کیا گیا اور گھر گھر تلاشی کے دوران خصوصی طور پر نوجوانوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا عمل جاری ہے جبکہ دوسری جانب یہاں آٹھ ماہ سے زائد عرصہ سے جاری لاک ڈاؤن نے کشمیری عوام کی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں۔ ان کیلئے اشیائے خورونوش اور ادویات کی فراہمی کا عمل ناممکن بنایا جا رہا، گھروں کے بجلی اور گیس کے کنکشن کاٹے جا رہے ہیں۔
ایسی صورتحال میں دنیا کیلئے سب سے بڑا سوال یہ نظر آتا ہے کہ دو ہفتوں کے دوران بڑے بڑے مضبوط ملکوں، ان کی معیشت اور عوام کو لاک ڈاؤن نے ہلا کر رکھ دیا ہے تو پھر یہ ان کیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آٹھ ماہ سے جاری لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں کشمیریوں کی کیفیت کیا ہوگی۔ بھارتی افواج کو اندھے اختیارات دیتے ہوئے انہیں آزادی کشمیر کی جدوجہد کو کچلنے کا ٹارگٹ دیا گیا ہے۔ اس صورتحال کی روشنی میں اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ مقبوضہ وادی میں جاری ظلم ستم اور بربریت پر عالمی ضمیر کیا خاموشی اختیار کئے رکھے گا ؟ بھارت کی جانب سے اختیار کی جانے والی پالیسی کے بعد آزادی کشمیر کی جدوجہد کیا رخ اختیار کرے گی۔
جہاں تک مقبوضہ کشمیر میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے عمل میں عالمی برادری کے کردار اور عالمی ضمیر کی خاموشی کا تعلق ہے تو اس امر پر دو آرا نہیں کہ کورونا نے دنیا کی بڑی طاقتوں اور ان کے حکمرانوں پر غیر معمولی کیفیت طاری کر رکھی ہے اور وہ سب اس علامتی دشمن کے مقابلہ میں بے بس نظر آ رہے ہیں۔ اربوں، کھربوں ڈالرز کے پیکیج اپنے عوام کو دئیے جانے اور انہیں ہر طرح کی سہولتوں کی فراہمی کے باوجود ان پر سوار خوف کا تدارک نہیں ہو پا رہا لہٰذا بھارت جیسے ملک اور اس کی انتہا پسند سرکار نے کورونا سے پیدا شدہ صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر پر اپنے تسلط کیلئے طاقت اور قوت کا بھرپور استعمال شروع کر رکھا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ مشکل کی اس صورتحال میں عالمی برادری کیلئے کشمیر کوئی ایسا ایشو نہیں ہوگا کہ جس جانب کوئی توجہ دے سکے اور کسی حد تک اس کی سوچ درست بھی ثابت ہوئی کہ آج ایک جانب کورونا عالمی سطح پر عذاب بن کر ٹوٹ رہا ہے تو دوسری جانب بھارت طاقت کے نشے میں چور نہتے اور مظلوم کشمیری عوام کے خون سے ہاتھ رنگ رہا ہے اور کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔
البتہ عالمی میڈیا میں ایسی رپورٹس ضرور آئی ہیں کہ کشمیر میں پیدا شدہ انسانی صورتحال پر عالمی برادری نے توجہ دی ہوتی تو آج عالمی سطح پر کورونا وائرس انسانی صورتحال طاری نہ کرتا اور دنیا کو اپنی پڑی نظر نہ آتی جہاں تک اس ساری صورتحال میں پاکستان کے کردار کا سوال ہے تو نہ تو بھارت عالمی دباؤ کو بروئے کار لا رہا ہے اور نہ ہی وہ کشمیر میں جاری خون کی ہولی پر پاکستان کے ردعمل کو کوئی اہمیت دینے کو تیار ہے لہٰذا پاکستان کو اس حکمت عملی پر نظرثانی کرنا ہوگی اور سوچنا ہوگا بھارت کشمیریوں کی نسل کشی کرنے کیلئے اپنی حکمت عملی پر گامزن رہے گا تو کیا ہم اس پر احتجاجی بیانات اور اعلانات تک محدود رہیں گے۔ بھارت مقبوضہ وادی میں کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کئے رکھے گا اور ہم اس پر عالمی دنیا کو پکارتے رہ جائیں گے۔