اسلام آباد: (دنیا نیوز) اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود اینٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بل2020، انسداد دہشت گردی تیسرا ترمیمی بل 2020، اسلام آباد ہائی کورٹ ترمیمی بل 2019 اور اسلام آباد وقف املاک بل 2020، سرویئنگ اینڈمیپنگ ترمیمی بل 2020 کثرت رائے سے منظور کرلیے گئے۔
حکومت اور اپوزیشن نے اپنے اپنے اراکین کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور بلاول بھی ایوان میں موجود تھے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سب سے پہلے ڈاکٹر بابر اعوان کی جانب سے اسلام آباد وقف املاک بل 2020ء کی تحریک پیش کی گئی۔ تحریک کی حمایت میں 200 جبکہ مخالفت میں 190 ارکان نے ووٹ دیا۔
اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے پوائنٹ آف آرڈر پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا سپیشل اسٹنٹ اور ایڈوائزر کے حوالے سے فیصلہ واضح ہے، ڈاکٹر بابر اعوان ایڈوائزر ہیں وزیر نہیں، انہوں نے بل کیسے پیش کیا؟
اس کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ مشیروں پر صرف ووٹ دینے کی قدغن ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا جو حوالہ دیا گیا، اس میں ایسی بات کہیں نہیں لکھی۔ انہوں نے چیلنج کیا کہ میاں رضا ربانی نے جس فیصلے کا حوالہ دیا، لکھا ہوا بتا دیں۔ بابر اعوان ایڈوائزر ہیں، وہ بل پیش کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اسلام آباد وقف املاک بل 2020ء کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
اپوزیشن کی تمام ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے اس بل کو کثرت رائے سے منظور کیا گیا۔ اسلام آباد دارالحکومت علاقہ جات وقف املاک بل ایوان بالا سے مسترد ہونے کی وجہ سے مشترکہ اجلاس میں لایا گیا تھا۔
اپوزیشن اراکین نے بڑی تعداد میں سپیکر ڈائس کے قریب پہنچ گئے اور شدید نعرہ بازی شروع کردی۔ اپوزیشن کے ایک درجن کے قریب ارکان نے سپیکر ڈائس کا گھیراؤ کر لیا۔ مرتضیٰ جاوید عباسی نے بل کی کاپی پھاڑ کر سپیکر کی طرف پھینک دی۔
اپوزیشن کے شدید احتجاج اور مطالبے پر سپیکر نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو فلور دیدیا جس پر شاہ محمود قریشی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جس کی ترمیم ہے، اسے ہی بات کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اگر بلاول بھٹو کی کوئی ترمیم ہے تو ضرور بات کریں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے سپیکر نے کہا کہ رولز پڑھ لیں، اسی کے مطابق بولنے کا موقع دے رہا ہوں۔ بلاول بھٹو کو موقع فراہم نہ کرنے پر اپوزیشن ارکان نے دوبارہ شدید احتجاج شروع کر دیا۔
اپوزیشن لیڈر کو فلور دینے پر حکومتی ارکان نے اعتراض کیا۔ بابر اعوان نے قومی اسمبلی کا رولز 131 پڑھ کر سنایا اور کہا کہ کسی بھی بل کی منظوری میں ترمیم جمع کرانے والے ممبر کے علاوہ کوئی اور ممبر بات نہیں کر سکتا۔
اس کے بعد اینٹی منی لانڈرنگ دوسرا ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا گیا۔ شاہد خاقان عباسی نے اس کیخلاف ترمیم پیش کی اور کہا جس طرح اجلاس چلایا جا رہا ہے، اس سے ہاؤس کی عزت نہیں ہو رہی۔ ہمیں بولنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔ بل سے متعلق ہماری 10 سے 12 ترامیم ہیں۔ اپوزیشن خصوصاً چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو بات کرنے کا موقع نہ دینے کیخلاف حزب اختلاف کے ممبرز نے ایوان سے واک آؤٹ کر لیا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کل آٹھ بل منظور ہوئے۔ ان میں اسلام آباد متروکہ وقف املاک بل 2020ء، انسداد منی لانڈرنگ دوسری ترمیمی بل 2020ء، سروے اینڈ میپنگ ترمیمی بل 2020ء، پاکستان میڈیکل کمیشن بل 2020ء پاکستان میڈیکل ٹریبونل بل 2020ء، انسداد دہشتگردی بل 2020ء، معذور افراد کے حقوق کا بل 2020 اور اسلام آباد ہائیکورٹ ترمیمی بل 2020ء بھی منظور کر لیا گیا۔
انسداد منی لانڈرنگ دوسری ترمیم بل 2020ء کے تحت اس میں ملوث افراد کو دس سال تک قید اور اڑھائی کروڑ جرمانہ ہو سکے گا۔ بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کی املاک بھی ضبط کی جا سکیں گی۔ اگر کوئی قانونی فرم کا ڈائریکٹر، افسر یا ملازم بھی منی لانڈرنگ میں ملوث ہوا، اُسے بھی دس سال تک قید ہوگی۔
انسداد منی لانڈرنگ کا قانون بننے کے بعد تیس دن میں حکومت قومی مجلس عاملہ تشکیل دے گی۔ نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی کے سال میں دو اجلاس منعقد ہونگے۔
کمیٹی ایکٹ موثر اطلاق منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں مالی معاونت کی روک تھام کے لیے قومی پالیسی تشکیل دے گی۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں مالی معاونت کی روک تھام کے لیے سفارشات وضع کرے گی۔
اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے انضباطی اتھارٹی بھی بنے گی۔ سیکرٹری خزانہ کی سربراہی میں ایک جنرل کمیٹی بھی بنے گی جو پندرہ اراکین پر مشتمل ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ میں انسداد دہشتگردی ایکٹ ترمیمی بل 2020ء مسترد، اجلاس جمعہ تک ملتوی
اس سے قبل سینیٹ میں انسداد دہشتگردی ایکٹ ترمیمی بل 2020ء مسترد کر دیا گیا تھا۔ بل کے حق میں 31 اور مخالفت میں 34 ووٹ آئے۔
سینیٹ اجلاس میں انسداد دہشتگردی ایکٹ ترمیمی بل 2020ء کیلئے تحریک سینیٹر سجاد طوری کی جانب سے پیش کی گئی جس پر ایوان کی جانب سے تحریک پیش کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اپوزیشن اراکین نے انسداد دہشتگردی ایکٹ تیسرے ترمیمی بل 2020ء پر ووٹنگ کا مطالبہ کیا۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بل کی منظوری کے لیے ووٹنگ شروع کرائی تو بل کے حق میں 31 اور مخالفت میں 34 ووٹ آئے۔ انسداد دہشتگردی ایکٹ ترمیمی بل 2020 مسترد ہونے پر سینیٹ کا اجلاس جمعہ کی صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔