لاہور: (دنیا الیکشن سیل) گلگت بلتستان کے انتخابی حلقے 10 سکردو 4 کے انتخابی معرکے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے نئے کھلاڑی پر انحصار جبکہ دیگر جماعتوں کی جانب سے اس حلقے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پرانے کھلاڑیوں کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کر لیا۔
سکردو شہر کے اہم علاقوں پر مشتمل اس حلقے میں 26 ہزار 839 رجسٹرڈ ووٹرز حق رائے استعمال کریں گے جن میں سے مرد ووٹرز کی تعداد 14 ہزار 741 جبکہ 12 ہزار 98 خواتین ووٹرز ہیں۔
گلگت بلتستان انتخابات کیلئے سکردو حلقہ 4 میں کل 46 پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے ہیں جن میں سے 3 مردوں کیلئے اور 3 خواتین کیلئے ہیں جبکہ 40 پولنگ سٹیشن مخلوط ہیں۔
اس حلقے میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سکردو حلقہ 4 میں امیدواروں کی جانب سے جاری انتخابی مہم میں گرمجوشی نظر آ رہی ہے اور عوامی دلچسپی بھی دیگر حلقوں کی نسبت زیادہ ہے۔
اس حلقے میں سیاسی زور آمائی کیلئے 11 امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے 5 آزاد امیدوار ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حلقے کے پرانے سیاستدان وزیر حسن کو امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف میں حال ہی میں شمولیت اختیار کرنے والے وزیر حسن آئندہ انتخابات میں پانچویں مرتبہ قسمت آزمانے میدان میں اتریں گے۔ اس سے قبل وزیر حسن 1999ء اور 2009ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔
اسلامی تحریک پاکستان کی جانب سے ایک مرتبہ پھر محمد سکندر علی کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ محمد علی خان 2004ء میں پہلی بار مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کے کامیاب ہوئے اور پھر 2015ء میں اسلامی تحریک پاکستان کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔
مسلم لیگ ن نے غلام عباس پر انحصار کیا ہے جبکہ مسلم لیگ ق نے وزیر اسحاق کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح مجلس وحدت المسلمین نے دیرینہ کارکن مشتاق حسین کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے حلقے کی اہمیت کو بھانپتے ہوئے تحریک انصاف کے امیدوار وزیر حسن کی برادری سے وزیر محمد خان کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ وزیر محمد خان کا یہ پہلا الیکشن ہے۔
آزاد امیدواروں میں سے نجف علی پہلی بار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ نجف علی گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن تھے اور اسی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابی معرکے میں شرکت کے خواہشمند تھے، البتہ پارٹی ٹکٹ جاری نہ کیے جانے پر انہوں نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسی طرح آزاد امیدوار راجہ ناصر علی خان نے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا مطالبہ کیا تاہم ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے کاغذات جمع دیئے۔
راجہ ناصر علی خان 2015ء میں بھی مجلس وحدت المسلمین کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ چکے ہیں، جس میں ان کو صرف 16 ووٹوں سے شکست ہوئی۔ یہ حلقہ سکردو شہر کر اہم علاقوں ڈمبوداس، طورمِک، ستک، شنگوس، گنجی اور میندی پر مشتمل ہے۔
اس حلقے کی کل آبادی 76 ہزار سے زائد ہے اور یہاں کی اہم برادریوں میں شینا، راجہ، سادات، پُشتنی، وزیر برادری شامل ہیں۔ سکردو حلقہ 4 کی 60 فیصد آبادی کی مادری زبان تبتی بلتی ہے جبکہ باقی آبادی شینا زبان بولتی ہے۔
سکردو شہر کا حلقہ 4 ضلع سکردو کا حصہ ہے۔ ضلع سکردو کی شرح خواندگی تقریباً 72 فیصد ہے۔ اس کے باوجود اس ضلع کے چاروں حلقوں سے کسی بھی خاتون امیدوار نے انتخابی دوڑ میں حصہ نہیں لیا۔