لاہور: (خصوصی ایڈیشن) آج عالمی سپر پاور امریکہ میں کرفیو اور فوج کے سائے میں قیادت بدلنے والی ہے۔ 78سالہ ڈیمو کریٹس رہنما جوزف بائیڈن بھرپور طاقت کے ساتھ اقتدار میں آنے والے ہیں۔
نسلی امتیاز کا خاتمہ اور امریکہ کی ’’روح کی بحالی‘‘ان کا امتحان ہوں گے!، آج ہی سےبڑی عالمی اور مقامی تبدیلیوں کا بھی آغاز ہونے والا ہے، ممکنہ اقدامات پر ایک نظر,’’پاتھ وےٹوسٹیزن شپ‘‘ نامی منصوبے سے غیر قانونی طور پر مقیم1.1کروڑ امیگرنٹس کو شہریت ملنے کا راستہ کھل جائے گا,جوبائیڈن حکومت موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق عالمی معاہدے میں شامل ہونے کے علاوہ100 قوانین بھی بدل دے گی,مہاجرین،سیاسی پناہ اور خاندانوں کو ملانے کے حوالے سے قوانین میں نرمی لائی جائے گی ’’بلیک لائف میٹرز‘‘کی تحریک کے بعد گوروں کی انتہا پسندی نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دیں,جوبائیڈن حکومت2050ءتک تیل اور گیس کے کنوؤں کو تالے لگا دینا چاہتی ہے امریکہ میں برسراقتدار آنے والے حکمران عوامی امنگوں پر پورا نہیں اتر سکے,ٹرمپ کی پالیسیوں سے4کروڑ امریکی بے دخل ہو سکتے تھے،جوبائیڈن اس ضمن میں 30ارب ڈالر جاری کریں گے ٹرمپ کی پالیسی سے قانونی اور جائز امیگریشن میں بھی 2021ءتک49 فیصد کمی آسکتی ہے ڈونلڈٹرمپ نے سیاہ فاموں کو رہائشی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے والے قانون پر عمل درآمد روک دیا تھا،جوبائیڈن اسے فعال کرنے والے ہیں
ڈیمو کریٹک پارٹی کو طویل عرصے بعد وائٹ ہائوس کے ساتھ سینیٹ اور کانگریس میں بھی اکثریت ملی ہے ،ورنہ سابقہ ادوار میں ڈیموکریٹک حکمرانوں کی راہ میں کبھی سینیٹ تو کبھی کانگریس رکاوٹ بنتے رہے ہیں ۔اب ایسا نہیں ہوگا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹ میں قائد مچ میکونل نے بھی جو بائیڈن کی مشکلات میں کمی کا یقین دلایا ہے،ان کے الفاظ ہیں کہ ’’میں بائیڈن کابینہ کے ارکان کے نام منظوری کے لئے سینیٹ میں پیش کر دوں گا ‘‘۔یہ انتہائی مثبت رد عمل ہے۔انہیں ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی قرار داد کے حق میں بھی ووٹ ڈالنے والے 10 ری پبلیکن ارکان کانگریس کی حمایت بھی حاصل ہو سکتی ہے۔اس سے سیاسی کشیدگی میں کمی اور معاشی پروگرام پر عمل درآمد کی راہ ہموا ر ہو گئی ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں چاروں طرف اہم عمارات کے ارد گر د خار دار تاریں اور فوج ہی فوج نظر آ رہی ہیں۔جیسے امریکہ نہ ہو، تیسری دنیا کا کوئی ملک ہو۔ واشنگٹن ریڈ زون بن گیاہے، کسی کو وائٹ ہائوس یا ریاستی سینیٹ اور کانگریس کے قریب پھٹکنے کی بھی اجازت نہیں۔ وائٹ ہائوس کی عمارت کے باہر گرائونڈ میں دنیا کے سیاسی منظر نامے میں تبدیلی لانے والی اہم ترین تقریب منعقد ہونے والی ہے، اس تقریب کے بعد چند دنوں کے اندر اندر نہ صرف امریکہ میں سابقہ ادوار میں پیدا شدہ مسائل سے ملک کو پاک کرنے کی کوششوں کا آغاز ہو نے والا ہے بلکہ امریکہ کے اندر بھی منظرنامہ یکسربدل جائے گا۔ سیاست، معیشت او رمعاشرت میں انقلابی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے، کیسے؟ ۔ اس کا بھی جائزہ لیں گے ۔
6جنوری کو ہنگاموں کے بعد سے ہزاروں فوجی جوان اور نیشنل گارڈ سیاسی نظام کو بچانے سرکاری ایوانوں کی را ہداریوں میں گشت کر رہے ہیں۔ان میں دو ہزار جوان ویسٹ ورجینیا اور 5ہزار دیگر علاقوں سے بلائے گئے ہیں، ایک خاص حکمت عملی کے تحت نیشنل گارڈز کا چنائو بھی دیگر ریاستوں سے کیا گیا ہے۔ بعض رپورٹوں میں کل تعداد 25ہزار بھی بتائی جا رہی ہے۔یہ جوان ٹرمپ کے حامیوں سے نجات کیلئے ’’ رت جگا ‘‘کے ماحول سے بھی گزر چکے ہیں۔دن بھر کے تھکے ہارے جوانوں نے ابراہام لنکن کے مجسمے اور آزادی کی دوسری علامات کے سائے میں چند لمحوں کی نیند لے لی۔کہتے ہیں کہ یہ نیشنل گارڈ لاٹھیوں یا آنسو گیس استعمال نہیں کریں گے، ان کے کوڈآف کنڈٹ میں یہ دونوں اشیاء مذکور نہیں۔ یہ تو سیدھی گولی چلائیں گے جیسا کہ انڈیا میں ہو رہا ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ اورنریندر مودی نے مل کر دونوں جمہوریتوں کا ایک جیسا حال کر دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش تھی کہ فوج انہیں رخصت کرے یعنی فوجی گارڈ آف آنر کے ساتھ انہیں ایوان سے الوداع کیا جائے لیکن فوج ماضی میں بھی ٹرمپ اور ان کے حامیوں کی مارشل لاء لگانے کی تجویز سے دامن بچاتی رہی ہے۔ پہلے بھی کئی مرتبہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے واشگاف الفاظ میں فوج کو حکومت سنبھالنے کی دعوت دی، یہ بھی کہا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ فوج کی مدد سے اقتدار کی تبدیلی کا عمل روک دیں گے لیکن فوجی اداروں نے مارشل لاء لگانے کے امکان کو خارج از آئین قرار دیتے ہوئے اسے قبول نہیں کیا، بلکہ ’’بلیک لائف میٹرز‘‘ کے بعد بھی جب ٹرمپ نے کئی ریاستوں میں فوج بھیجی تو یہ فوراََ ہی واپس بھی چلی گئی۔ واشنگٹن ڈی سی سے بھی دو دنوں کے اندر اندر فوج کا انخلاء شروع ہو گیا تھا اسی تنازعے پر اس وقت کے وزیر دفاع کو جانا پڑا تھا۔
ٹرمپ کی جانب سے گارڈ آف آنر لینے کی تجویز پر فوجی سربراہان نے زبان بندی کر لی ہے ، پینٹاگان نے ہونٹ سی لئے ہیں ، ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے ٹرمپ کو ’’نہ‘‘ کر دی گئی۔ لہٰذا انتقال اقتدار سے پہلے ہی وہ مرکزی دارالحکومت سے چلے جائیں گے۔ کسی صدر کی عدم شمولیت کا موقع تقریباََ ڈیڑھ سو سال بعد آئے گا۔ان کی نمائندگی نائب صدرمائیک پنس کریں گے ،بطور نائب صدر یہ ان کی آخری تقریب ہو گی۔ اسی تقریب میں وہ سابق نائب صدر بن جائیں گے ، ان کی کرسی جو بائیڈن کے ساتھ لگا ئی جا رہی ہے۔
جو بائیڈن وقت ضائع کرنے پر یقین نہیں رکھتے ،ان کی پالیسیاں اور پلان پہلے سے تیار ہیں ، انہوں نے سینیٹر ٹیڈ کوفمین (Ted Kaufman) کی قیادت میں ٹرانزیشن ٹیم بھی بنادی تھی،ٹیڈ کوفمین 2008ء میں بھی ان کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ یہ ٹیم انفراسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں کو حتمی شکل دے چکی ہے۔ان کی پہلی ترجیح امریکی روایات اور اقدار کی بحالی اور ان کا تحفظ کرنا ہے۔ ہر نظرئیے کی ترویج و ترقی ان کے اخلاقی پلان کا حصہ ہے۔ قومی یکجہتی اور یگانگت کیلئے خواہ کچھ بھی ہو جائے، تھنک ٹینک کچھ بھی کہتے رہیں ،جو بائیڈن اپنے گروپ کی تیار کردہ پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے رہیں گے۔ یہاں یہ بتانا بھی کم اہم نہیں ہوگا کہ جو بائیڈن کو چند اسلامی ممالک (ایران، صومالیہ، شام ،یمن اور لیبیائوغیرہ )پر عائد سفری پابندیاں نہ اٹھانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ شمالی کوریا اور وینزویلابھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ہر طبقے کو ساتھ لے کر چلنے کے خواہشمند جو بائیڈن کسی منفی تجویز کو خاطر میں نہیں لائے۔اغلب امکان ہے کہ یہ پابندی آج ہی ختم کر دی جائے گی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر سابق صدر ٹرمپ سوڈان کو امریکی سفارت خانے پر دہشت گردی کے حملے سے بری کر سکتے ہیں تو جو بائیڈن محض سفری پابندیاں کیوں ختم نہیں کر سکتے؟۔ یہ پابندیاں ڈونلڈ ٹرمپ نے 4دسمبر 2017ء کو عائد کی تھی۔
سیاسی اور معاشی تبدیلی کی لہر آنے والی ہے!
جو بائیڈن جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں ، وقت برباد کئے بغیر فوری کام شروع کریں گے،آج کا دن بھی ا س میں شامل ہے ان کے اولین احکامات کی فہرست میں کووڈ 19کو فوقیت حاصل ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ مختلف سازشی تھیوریوں کے تحت متواتر کورونا وائرس کی سنگینی کو کم کرتے رہے۔ کبھی اسے نارمل فلو قرار دیا تو کبھی چینی وائرس کہہ کر دوسرے ملک پر الزام دھردیا، وہ نیو یارک سمیت کئی امریکی ریاستوں کے ساتھ بھی اس معاملے پر ’’حالت جنگ‘‘ میں رہے اور بار بار فیڈرل ریزرو فوج بھیجنے کی دھمکی دیتے رہے۔ لیکن ان کے دور میں کورونا وباء سے متاثر ہونے والے 2.43 کروڑ افراد میں سے 4لاکھ 3 ہزار سے زائد موت کے منہ میں چلے گئے ، صحت یاب ہونے والوں کی تعدادصرف ایک کروڑ سے کچھ زیادہ ہے، سوا کروڑ سے زائد افراد کورونا کے مرض میں مبتلا ہیں۔ جو بائیڈن کورونا 100دن تک ماسک کو لازمی قرار دے سکتے ہیں، جبکہ علاج اور بحالی کیلئے 1.9 ٹریلین ڈالر کے ریلیف پیکج کا اعلان شائد آج ہی ہو جائے۔ اس میں 1400ارب ڈالر نقد امداد اور 20ارب ڈالرویکسین کی تیاری اور فراہمی کیلئے دیئے جائیں گے ۔ بے روزگاری الائونس 400 ڈالر فی ہفتہ کر دیا جائے گا۔وہ ایک سو دنوں میں 10کروڑ امریکیوں کی ویکسی نیشن کرانا چاہتے ہیں۔بعض رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ’’یہ کام 20 جنوری سے ہی شروع ہو گا۔’’مجھے معلوم ہے کہ یہ نہایت مہنگا پروگرام ہے، لیکن اس کے اعلان میں ناکامی بھی اس سے کہیں مہنگی پڑے گی‘‘۔ جو بائیڈن نے کہا۔
ہائوسنگ انڈسٹری کی بحالی اور بے گھروں کو مکانات کی فراہمی
روزگار سے محرومی کے بعد کئی لاکھ امریکیوں کے بے گھر ہونے کا اندیشہ ہے، کرائے کی عدم ادائیگی کے باعث مالک مکان کسی بھی وقت بے دخلی کا نوٹس دے سکتا ہے۔ جنوری موجودہ سرکاری پلان کی مدت ختم ہونے کے بعد 4کروڑ امریکیوں کے بے گھر ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے ( یو ایس اے ٹوڈے،سی ا ین بی سی) ۔ بے دخلی کے نوٹسوں کو غیر موثر کرنے کیلئے جو بائیڈن کے پلان میں 30ارب ڈالر کا یہ پیکج بھی شامل ہے۔ ۔اس پیکج سے 30ستمبر تک رہائشی مشکلات ختم ہو جائیں گی۔جبکہ ان 900 ارب ڈالر سے تعمیراتی انڈسٹریز کو نئی زندگی دی جائے گی۔ٹرمپ اسی لئے ہار گئے کہ ان کی پالیسیوں سے ان افراد کے بے گھر ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیا تھا۔
امیگریشن قوانین میں تبدیلی لائی جائے گی!
ٹڑمپ نے 2016ء میں کئے گئے وعدے کے مطابق دیوار بھی بنانا شروع کر دی تھی، کئی اجتماعات میں اس دیوار کو مکمل کرنے کے نعرے بھی لگائے گئے ، دیوار کے حامی اور مخالف ، دونوں ہی موجود ہیں۔ ’’نیشنل فائونڈیشن فار امریکن پالیسی ‘‘ نے سروے رپورٹ جاری کی تھی ’’ٹرمپ کی پالیسی سے قانونی اور جائز امیگریشن میں بھی 2021ء تک 49فیصد کمی آ جائے گی‘‘۔جو بائیڈن ان میں سے کئی پالیسیوں کو بدل دیں گے۔اس ضمن میں ایگزیکٹیو آرڈرز یا میمو جاری کئے جا سکتے ہیں۔ مہاجرین، سیاسی پناہ، پرائیویٹ ڈیٹنشن ،خاندانوں کو ملانے کے حوالے سے قوانین میں نرمی لائی جائے گی۔ ’’پاتھ وے ٹو سٹیزن شپ‘‘ نامی منصوبہ بھی زیر غور ہے۔اس کے تحت امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم 1.1کروڑ امیگرنٹس کو شہریت ملنے کا راستہ کھل جائے گا۔یاد رہے اوباما کے آخری سال میں ایک لاکھ دس ہزار مہاجرین امریکہ آئے تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں یہ تعداداکتوبر میں15ہزار رہ گئی تھی۔
روزگار کی فراہمی اور ٹیکسوں میں رعایت
امریکہ میں اس وقت بے روزگاری کا تناسب 6.7فیصد ہے۔کورونا سے پیدا شدہ مسائل کا زیادہ نشانہ خواتین بنی ہیں،کئی اداروں میں تمام خواتین برطرف کر دی گئی ہیں۔کم سے کم امداد بڑھانے کے علاوہ وہ فی گھنٹہ معاوضہ میں بھی اضافہ کرنے والے ہیں۔ ٹرمپ نے کارپوریٹ ٹیکس (جو15سے 39فیصد تک تھا) کو 21فیصد کر دیا تھا، یہ فلیٹ ریٹ تھا ،کوئی بھی کمپنی دے سکتی تھی۔کمزور طبقات کو سہولتیں دینے کے لئے جو بائیڈن امراء کو ٹیکسوں میں 2017ء میں دی جانے والی یہ رعایت واپس لے لیں گے ۔ وہ ہر شہری کو مکانات کی خریداری کے لئے 15ہزار ڈالر تک ’’ری فنڈیبل ٹیکس کریڈٹ‘‘ کی سہولت بھی مہیا کریں گے۔ تاکہ وہ یہ رقم حکومت کو ادا کرنے کی بجائے مالک مکان کو ڈائون پے منٹ کے طور پر ادا کر کے مکان خرید سکیں۔
اس ٹیکس کریڈٹ کیلئے 10ارب ڈالر تجویز کئے گئے ہیں۔ غریبوں کو رعایتیں دینے کے لئے امراء پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالاجائے گا۔
ماحول دوست اقدامات
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں منفرد نقطہ نظر کے حامی تھے ان کی رائے میں ’’فرد موسم کو نہیں بدل سکتا ،یہ قدرت کا کام ہے اور انسانوں کے بس میں نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو کام کرنے کی اجازت بھی اسی لئے دے دی تھی۔وہ ’’کلائمیٹ چینج‘‘ سے متعلق سب سے بڑے معاہدے ’’پیرس ایگرمنٹ ‘‘سے بھی باہر نکل آئے تھے ۔جو بائیڈن کہتے ہیں کہ ’’موسمیاتی تبدیلی ہماری زمین کی بقاء کے لئے خطرناک ہے، اس سے ہمارا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے‘‘۔ اب سنا ہے کہ جو بائیڈن پیرس ایگرمنٹ میں شمولیت کا اعلان کرنے والے ہیں ۔ جبکہ نئی حکومت ڈونلڈ ٹرمپ کے ہوا، پانی اور جنگلی حیات سے متعلق جاری کردہ 100 قوانین بھی بدل دے گی۔وہ 2035 ء تک سو فیصد کلین انرجی کے حامی ہیں اور اسی سمت میں اقدامات کریں گے۔وہ 2050ء تک صفر آلودگی کی منزل حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔اس ضمن میں درجنوں لاکھ عمارتوں کو شمسی توانائی پر بدلنے کیلئے حکومت سہولتیں مہیاکرے گی۔ وہ تیل اور گیس کا استعمال 2050ء تک ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کروڑوں کاروں کو بجلی پر منتقل کرنے سے مزید10 لاکھ ملازمتیں پیدا ہوں گی ۔گاڑیوں کو ری چارج کرنے کے لئے 5لاکھ نئے سٹیشنز بنائے جائیں گے۔ریلوے سسٹم کو بھی بجلی پر چلایا جائے گا ۔کلین انرجی پر 2035ء تک کل 2 ٹریلین ڈالر خرچ کئے جائیں گے۔
نسل پرستی کا خاتمہ
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو بائیڈن کس طرح قوم کو متحد کریں گے ؟ کیونکہ جو بائیڈن کو نہایت ہی منقسم امریکہ مل رہا ہے، ،ہر طرح کی انتہا پسندی عروج پرہے، امریکہ میں سب سے بڑا اور بنیادی چیلنج یہی ہے کہ امریکہ کو کس طرح متحد رکھا جائے؟۔ امریکہ چونکہ کالے گورے کی تقسیم توختم نہیں کر سکااس لئے نئے چیلنج نے امریکہ کی بنیادیں ہی ہلا کر رکھ دی ہیں ۔اب تو یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ موجودہ شکل میں امریکہ قائم رہ سکتا ہے یا نہیں ؟اس سوال کا جواب اس بات منحصر پر ہے کہ امریکہ میں ہر طبقے کو اس کے حقوق کے تحفظ کا یقین کس طرح دلایا جا سکتا ہے۔ دانشور اس کا حل تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔توحالت یہ ہے کہ نشویل کائونٹی (Nashville) میں ایک امریکی انتھونی وارنر کے قبضے سے بھاری مقدار میں بم بنانے کا سامان برآمد ہواہے۔ شریک حیات نے اگست 2019ء میں پولیس کو وارننگ بھی دی تھی کہ میرا شوہربم بنا رہا ہے،مگر کسی نے دھیان نہ دیا۔حد تو یہ ہے کہ پولیس بھی ناکام ہے۔ انتھونی وارنر نے انتہا پسندی پھیلانے والے خطوط بھی لکھے تھے۔سیاہ فاموں کی سرگرمیوں کے بعد سے گورے بھی متحد ہو گئے ہیں اسی لئے کہا جا رہاہے کہ ’’جب تک قانون کا یکساں، منصفانہ اور برابری کی بنیاد پر اطلاق نہیں ہو گا اس وقت تک انتہا پسندی ختم نہیں ہو گی‘‘۔ ان کا اشارہ 6جون کو واشنگٹن میں پیش آنے والے واقعات کی جانب تھا۔
نسل پرستی شروع کیسے ہوئی؟
25مئی کومنی سوٹا کے شہر منا پالس کے پولیس افسر ڈیرک شیوان نے ایمرجنسی کال وصول کی۔کالر نے بتایا کہ سیاہ فام باشندہ 20ڈالر کاجعلی نوٹ تھما کر نکل گیا ہے، جارج فلائیڈکو شاپنگ مال سے نکلتے ہی ڈیرک نے دبوچ لیا،ڈیرک نے اپنے گھٹنے سے اس کی گرد ن دبو چ رکھی تھی،’’میں سانس نہیں لے سکتا، میں سانس نہیں لے سکتا ، مجھے پانی دو مجھے پانی دو۔۔‘‘سیاہ فام فلائیڈ کئی بار بولا، لیکن ڈیرک نے گردن چھوڑنا گوارہ نہ کی ۔اس ایک واقعے کے بعد امریکہ بھر میں تشدد اور لوٹ مار نے جنم لیا ۔ اس ہلاکت کے بعدسے پھیلنے والی نسل پرستی نے امریکہ کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔ امریکی سڑکیں ’’میدان جنگ ‘‘ کا منظر پیش کرنے لگی تھیں۔ 23 ریاستوں میں امن و امان کے قیام کے لئے 66700 نیشنل گارڈز کے دستے اور 16سو فوجی جوان تعینات کرنا پڑے تھے۔ 16شہروں میں کرفیو لگانا پڑا۔ سب سے اہم نعرہ یہی تھا ۔’’گوری امریکی پولیس اور گوروں کا تحفظ کرنے والے اداروں کو خدا حافظ‘‘ ۔
سابق صدر ٹرمپ نے کہا کہ۔۔۔’’قانون کا احترام کرنے والے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر میں تمام وفاقی اور مقامی وسائل ،سول ہوں یا فوجی بروئے کار لا رہا ہوں‘‘۔لیکن فوج نے اس وقت بھی اس کی مخالفت کی ۔ایک ویب سائٹ کے مطابق 33میں سے 30 ای میلز میں فوجیوں نے صدارتی فیصلے کو درست تسلیم نہیں کیا۔یعنی فوج میں بھی اس فیصلے کی حمایت موجود نہ تھی۔
امریکی صد رٹرمپ نے ان مظاہروں کو جمہوریت کے خلاف بغاوت قرارد یتے ہوئے دھمکی دی جو مہنگی پڑ گئی۔’’بلوم برگ ‘‘کے کالم نویس میتھیو گڈون نے ان پرتشدد مظاہروں کو ’’جمہوریت کے خلاف بغاوت‘‘ سے تعبیر کیا،وہ ان کے نزدیک ’’ ناقص کارکردگی کی بدولت عالمی جمہوریتوں کو پاپولسٹ مخالفت کا سامنا ہے‘‘۔ امریکہ کی حکومتیں عوامی امنگوں پر پوری اترنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے نسل پرستانہ اقدامات اور امیگریشن جیسے سنجیدہ مسائل پر غیر سنجیدگی ری پبلیکن پارٹی کے لئے بھی باعث تشویش ہے۔ امریکہ میں ابھرتی ہوئی تقسیم پر ڈیموکریٹس تو پہلے ہی پریشان تھے ،اب ری پبلیکن پارٹی بھی فکر مندہے۔ کئی رہنما متعدد مرتبہ اس کا اظہار کر چکے ہیں۔ سابق صدر جارج ڈبلیو بش کا بیان اس کی صداقت پر مہر ثبت کرتا ہے۔ انہوں نے دو ٹوک لفظوں میں ٹرمپ کی اگلے انتخابات میں نامزدگی کی مخالفت کرنے کا اعلان کیا ہے۔
’’پبلک ہیلتھ انگلینڈ‘‘ نامی ادارے کے جاری کردہ اعداد و شمار آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔کووڈ۔ 19 سے مرنے والوں میں امیگرنٹس اور سیاہ فام باشندوں کی تعداد زیادہ ہے۔کورونا نے گوروں کے مقابلے میں سیاہ فاموں، ایشیائی باشندوں اور نسلی اقلیتوں کو کہیں زیادہ متاثر کیا ہے۔ اسی لئے برطانیہ میں پہلے سے ہی سے معاشی ناہمواری کے خلاف اقدامات اٹھانے پر زور دیا جارہا ہے ۔ دنیا بھر میں معاشی ناہمواری کے خاتمے کی بڑی تحریک شروع ہو سکتی ہے۔
جو بائیڈن نے اپنی تقاریر میں بارہا کہا ہے کہ ’’ جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے یہ امریکہ کا اصل چہرہ نہیں ہے، اسے کچل دیا جائے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ہم برسراقتدار آنے کے بعد امریکہ کی اصل روح کو بحال کردیں گے، جس میں سبھی قومیں مل جل کر اپنا کردار ادا کریں گی،ملک کی ترقی میں تمام اقلیتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے، ہماری کابینہ اور حکومت میں سبھی رنگ شامل ہوں گے‘‘ ۔ اور انہوں نے کابینہ میں سبھی کو شامل کر کے اپنی بات کی صداقت پر مہر ثبت کر دی ہے۔ وہ اس ضمن میں بلاتاخیر اور اوپر تلے متعدد اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔
آپ کو شائد یہ سن کر حیرت ہو کہ آج بھی امریکہ میں سیا ہ فام باشندوں کوجائیداد کی خریداری کیلئے گوروں کے مساوی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ جو بائیڈن امتیازات کے خاتمے کرنے کا اعلان کریں گے۔خاص طور پر افریقی امریکیوں کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے جس کا ڈیموکریٹک پارٹی اب ازالہ کرنا چاہتی ہے۔