اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مناسب اضافہ کیا ہے، بجٹ میں مزید بڑھائیں گے۔
تفصیل کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مناسب اضافہ کیا ہے، بجٹ میں مزید بڑھائیں گے۔ مہنگائی کم کرنے کیلئے پورا زور لگائیں گے۔ قیمتیں کم ہوتی نظر آئیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن میں بولیاں لگ گئی ہیں۔ سینیٹ الیکشن کی خرید وفروخت کے معاملہ پر ویڈیو کی تحقیقات کیلئے کمیٹی بنا دی ہے۔ پی ڈی ایم چوری بچاؤ موومنٹ ہے۔ یہ ریلیف چاہتے ہیں لیکن ریلیف نہیں ملے گا۔
انہوں نے کہا ہے کہ تحریک لبیک کے ساتھ معاہدے کے مطالبات کو پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔ سیاستدانوں نے اربوں روپے کی سرکاری زمینوں پر قبضے کئے ہوئے ہیں، اگر حکومتی پارٹی کے کسی رکن نے سرکاری زمین پر قبضہ کیا ہے تو شکایت کریں، ایکشن لیا جائے گا۔
جمعرات کو نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سینیٹ کے الیکشن میں گزشتہ 30 سال سے ووٹوں کی خرید و فروخت ہوتی آ رہی ہے اور پیسہ پارٹی قیادت تک جاتا ہے، کسی نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ ویڈیو اگر ہمارے پاس پہلے ہوتی تو جن دو ارکان کو ہم نے گزشتہ سینیٹ الیکشن میں پارٹی سے نکالا تھا، ان کے خلاف عدالت میں یہ پیش کرتے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ سینیٹ کے الیکشن میں بولیاں لگ گئی ہیں، بلوچستان میں سینیٹ کی سیٹ کی قیمت 50 سے 70 کروڑ روپے چلی گئی ہے، سینیٹ الیکشن میں جو ایم پی اے اپنے ضمیر بیچیں گے اور وہ سینیٹرز جو پیسے دے کر ضمیر خریدیں گے وہ کیا پاکستان کی جمہوریت کی خدمت کریں گے۔
یہ لوگ ملک کے کیا فیصلے کریں گے، انہوں نے ہی وزیر بننا ہوتا ہے اور ملک کا مستقبل انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اگر یہی لوگ رشوت لیتے ہیں تو پھر تھانیدار اور پٹواریوں کو کیوں الزام دے رہے ہیں کہ وہ کرپشن کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ سیاستدان کہتے ہیں کہ ہمارا استحقاق مجروح ہوتا ہے، اس طرح کی حرکات سے ان کی کیا عزت رہ جاتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سینیٹ الیکشن کی خریدوفروخت کے معاملہ پر ویڈیو معاملے کی تحقیقات کے لئے تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے، یہ کمیٹی ایف آئی اے اور دیگر اداروں کی معاونت سے تحقیقات کرے گی اور پھر اس پر مزید کارروائی کے لئے الیکشن کمیشن کو سفارشات پیش کرے گی کہ یہ معاملہ نیب کو بھجوانا ہے یا اس پر کیا مزید کارروائی کرنی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ویڈیو پیش کرنے کے معاملہ کو اٹارنی جنرل دیکھ رہے ہیں، وہ سپریم کورٹ کو حکومت کے اقدامات کے حوالے سے آگاہ کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ 2013ءمیں خیبر پختونخوا میں الیکشن کے بعد تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تھی اور اس کے بعد 2015ءمیں سینیٹ الیکشن میں خریدوفروخت کا عمل شروع ہو گیا تھا، ہمارے ایم پی ایز کو بھی رقم کی پیشکش کی گئی تھی، اپنے ارکان اسمبلی کو خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے اپنے ووٹ فروخت کئے تو پھر صوبائی اسمبلی توڑ دی جائے گی۔ 2018ءکے سینیٹ الیکشن میں 18 سے 20 ارکان کو ہم نے سینیٹ الیکشن میں خریدوفروخت پر پارٹی سے نکال دیا تھا۔ ہم نے اچانک اوپن بیلٹ کی بات نہیں کی، پارلیمنٹ کے سامنے کافی عرصہ سے ہماری قانون سازی کا معاملہ زیر التواءہے۔ سیکرٹ بیلٹ کا فائدہ حکومت کو ہوتا ہے، ہمیں اپنی تعداد سے زیادہ سینیٹرز ملیں گے یا کم، یہ بھی اپوزیشن دیکھ لے گی لیکن یہی پھر روئیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ روپے کی قدر کم ہوتی ہے اور ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو گھی، تیل، دالیں اور تمام درآمدی اشیاءمہنگی ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے تنخواہ دار طبقے کو سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے اور اس بات کا علم ہے کہ تنخواہ دار طبقہ کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے لیکن حکومت کے پاس کیا راستہ رہ جاتا ہے، ہمیں پہلے ہی مقروض ملک ملا ہے جس میں بڑا خسارہ تھا اور بڑے قرضے لئے گئے۔ ان قرضوں پر سود دے رہے ہیں اور ہمارا آدھا پیسہ سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اگر تنخواہیں بڑھاتے ہیں تو خسارہ مزید بڑھ جاتا ہے جس سے قرضے لینا پڑتے ہیں اور قرضے لیں تو سود بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں گندم کی کٹائی کے وقت بارشیں ہونے کی وجہ سے پیداوار کم ہوئی اور ہمیں گندم درآمد کرنا پڑی۔ عالمی منڈی میں گھی کی قیمتوں میں بھی دوگنا اضافہ ہو گیا، دالیں بھی مہنگی ہو گئیں لیکن حکومت لوگوں پر مہنگائی کا بوجھ کم کرے گی اور قیمتیں کم ہوتی نظر آئیں گی۔ انہوں نے کہا کہ تھوڑا صبر کرلیں، ملک مشکل صورتحال سے گذر رہا ہے، اﷲ کے فضل سے ہماری برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے، تنخواہوں میں مناسب اضافہ کیا ہے، پہلے وہ مان گئے تھے، پھر مطالبات بڑھا دیئے۔ حکومتی ٹیم نے سرکاری ملازمین سے مذاکرات کئے ہیں۔ حکومت اپنی سکت کے مطابق تنخواہوں میں اضافہ کر رہی ہے، بجٹ میں بھی تنخواہوں میں اضافہ کریں گے۔
ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ چوروں کا ٹولا اپنے آپ کو پی ڈی ایم کہتا ہے، یہ ڈیموکریٹک موومنٹ نہیں، چوری بچائو موومنٹ ہے۔ یہ جو مرضی کرلیں، ہم نے انہیں کھلا چھوڑ دیا ہے، سب سے زیادہ عوام تحریک انصاف کے ساتھ نکلی ہے اور چار دفعہ ہم نے مینار پاکستان کو بھرا ہے۔ میں تو ان کی کرپشن کے خلاف ہی سیاست میں آیا ہوں۔ بڑے چوروں کی چوری بچانے کے لئے عوام نہیں نکلے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان معاہدہ ہوا ہے جس کے بعد تحریک لبیک نے ڈیڈ لائن کی تاریخ تبدیل کر کے 20 اپریل کر دی ہے۔ تحریک لبیک کے مطالبات پارلیمنٹ میں پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت سے پہلے کسی نے ناموس رسالت کے تحفظ کے معاملہ پر واضح موقف نہیں اپنایا۔ مغربی ممالک میں نبیﷺ کی شان میں گستاخی پلان کے تحت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مسلمان رہنمائوں کو خطوط بھی تحریر کئے ہیں، اگر 20، 25 سربراہان مملکت مل کر یہ معاملہ اٹھائیں تو ہماری ایک اور موثر آواز بنے گی۔ اس حوالے سے او آئی سی اور اقوام متحدہ سے بھی بیانات آ گئے ہیں، تین سے چار مسلمان سربراہان مملکت نے اس حوالے سے مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اسلامو فوبیا کی وجہ سے مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مغربی ممالک میں بیٹھے فتنے کو سمجھ نہیں آتی کہ حضور اکرمﷺ کی ذات مبارک سے ہمیں کتنی عقیدت ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں نے یہ معاملہ او آئی سی اور یو این میں بار بار اٹھایا ہے۔ فرانس میں جو کچھ ہوا اس پر پاکستان اور ترکی نے آواز اٹھائی۔ توہین رسالت کی ناپاک کوششیں روکنے کیلئے کردار ادا کرنے پر فخر ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں بچوں سے زیادتی اور دیگر سماجی جرائم کی روک تھام کے لئے علماءکرام کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس طرح کے جرائم صرف قانون کے ذریعے نہیں روکے جا سکتے، ان کے خلاف معاشرے میں آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بچوں سے بدسلوکی (تشدد) اور اجتماعی عصمت دری کی روک تھام کے لئے حکومت نے آرڈیننس پیش کیا۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں پوری امید ہے کہ سینیٹ میں پوری اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ پچھلے دو سال کے دوران ہمیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ سینیٹ میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے قانون کی منظوری کا عمل رک جاتا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن کے ہی بیانات ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات میں اوپن بیلٹنگ ہونی چاہئے۔ میثاق جمہوریت میں بھی انہوں نے اس پر اتفاق کیا۔ گزشتہ انتخابات میں جب (ن) لیگ کی سینیٹ میں ایک آدھ سیٹ کم ہوئی تو انہوں نے شور مچا دیا کہ پیسے چل گئے ہیں، اوپن میرٹ کے تحت سینیٹ کے انتخابات ہونے چاہئیں۔ اب یہ کیوں اس سے پیچھے ہٹ گئے ہیں کیونکہ انہوں نے یہ منصوبہ بنایا ہوا ہے کہ پیسہ بنا کر وہ سینیٹ میں اکثریت حاصل کرلیں۔ ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح انہیں چوری کے کیسز میں ریلیف مل جائے لیکن یہ ریلیف نہیں ملے گا۔
ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ لوگوں پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کیلئے پورا زور لگائیں گے، اس حوالہ سے مسلسل اجلاس ہو رہے ہیں، قیمتیں کم ہوتی نظر آئیں گی۔ اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے حوالہ سے وزیراعظم نے کہا کہ ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ ہر معاملہ پر بات چیت کرنے کو تیار ہیں لیکن جو مرضی بات کریں انہوں نے این آر او پر آ جانا ہے، ایف اے ٹی ایف کا این آر او سے کیا تعلق ہے، اس میں بھی انہوں نے 34 شقیں پکڑا دیں کہ نیب کو ختم کر دیں، ان کا یہی ون پوائنٹ ایجنڈا ہے، جس طرح مشرف نے معاف کیا تھا ہماری چوری بھی معاف کر دیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن ہوتی ہیں لیکن اپوزیشن کے بڑے بڑے لیڈر ڈاکو ہوں تو پھر یہ معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں کوئی ایسی مثال موجود نہیں ہے کہ حکمران چوری کریں اور وہ ملک ترقی کر جائے، انہوں نے ملک کو تباہ کیا ہے، وزیراعظم اور وزراءکی چوری سے تو ترقی یافتہ ملک بھی تباہ ہو جاتا ہے، ملائیشیا کے مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہاں پر سیاستدانوں نے اربوں روپے کی سرکاری زمینوں پر قبضے کئے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ وزیراعظم ہمارے خلاف انتقامی کارروائی کر رہے ہیں، انہیں چاہئے کہ وہ اس چیز کو ثابت کریں کہ جس زمین پر انہوں نے قبضہ کیا ہے وہ سرکاری ہے یا نہیں، ابھی مزید انکشافات ہونے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں حکومت میں آئے دو سال سے زائد ہو گئے ہیں، اگر حکومتی پارٹی کے کسی رکن نے سرکاری زمین پر قبضہ کیا ہے تو اس کی شکایت پورٹل پر کی جائے اور مجھے بتایا جائے، ایکشن لیا جائے گا۔