کراچی: (دنیا نیوز) چیف جسٹس نے شاہراہ قائدین تجاوزات کیس میں ریمارکس دیئے کہ کراچی کو کیا سمجھ رکھا ہے، آپ لوگوں نے ؟ اب آنکھیں کھولنے کا وقت آگیا، یہ کیپٹل سٹی رہا ہے، کیا بنا دیا اس شہر کو ؟ وزیراعلی سندھ سے کہا تھا کہ بتائیں، شہر کی بہتری کیسے کر سکتے ہیں، وزیراعلی سندھ کو کہیں یہاں آئیں اور وضاحت دیں، کمشنر کراچی کو ہٹائیں، انہیں کچھ معلوم نہیں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے اہم مقدمات کی سماعت کی۔
رائل پارک کیس کی سماعت کے دوران رپورٹ پر چیف جسٹس نے کہا ہمارے سامنے ڈپٹی کمشنرز کی رپورٹ کیسے پیش کی گئی۔ کمشنر نے کہا کھیل کے میدان بنا دیئے، رائل پارک میں سب ٹاور گرا دیئے۔
چیف جسٹس نے کہا ہمارا آرڈر کیا تھا اور یہ کیا بتا رہے ہیں، کچھ معلوم نہیں، یہ ہمارے لیے بڑی مشکلات پیدا کر رہے ہیں تو عام شہریوں کا کیا حال ہوگا، افسوس ہے انہیں تو کراچی کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں، کمشنر کراچی کو ہٹائیں، باغ ابن قاسم کیس میں کمشنر نے بتایا کہ سبزہ اگانے کا کام جاری ہے، تعمیرات کو منہدم کر دیا۔ عدالت نے باغ ابن قاسم کی تزئین و آرائش مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔
شاہراہ قائدین تجاوزات کیس میں چیف جسٹس نے کہا کہ اچانک سے ایک پلاٹ نکلتا ہے اور کثیر المنزلہ عمارت بن جاتی ہے۔ کمشنر کراچی نے کہا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے مطابق عمارت نالے پر نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا پوری عمارت نالے پر کھڑی ہے، ایس بی سی اے والے خود ملے ہوئے ہیں۔ ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے کہا کہ کل سپریم کورٹ اور وزیراعلی ہاؤس پر بھی عمارتیں بنوا دینگے آپ لوگ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہر مہینے ایس بی سی اے میں اربوں روپے جمع ہوتا ہے، ایڈووکیٹ جنرل صاحب یہ کیا ہو رہا ہے ؟ ابھی نسلہ ٹاور کی لیز منسوخ کر دیتے ہیں۔ عدالت نے ڈی جی ایس بی سی اے کو عمارت گرانے کا حکم دے دیا۔ فیروزآباد میں مختیار کار کے معاملے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کراچی کو مختاروں میں بانٹ دیا کیا ؟ یہاں سماعت کرنا بے کار ہے۔
سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو وضاحت کے لیے کل تک کی مہلت دیتے ہوئے کراچی سرکلر ریلوے 9 ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔