اسلام آباد: (دنیا نیوز) امریکی خبر رساں ادارے واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن کی طرف سے افغانستان سے عجلت میں انخلا اور طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد پاکستان کے ساتھ باہمی تعاون پر سنجیدگی سے غور کرنے کے علاوہ شاید کوئی اور متبادل نہیں، اس صورتحال میں امریکا اور پاکستان کی حکومتیں ایک بار پھر حقیقی اتحادی بننے کی راہ تلاش کر سکتی ہیں۔ تزویراتی لحاظ سے دونوں ممالک کے لئے یہی دانشمندی ہو گی جس کی ضرورت اس وقت سب سے زیادہ ہے۔
اس امر کا اظہار ممتاز امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنے ایک تازہ ترین مضمون میں کیا ہے۔ معروف امریکی کالم نگار جوش روگن نے اپنے مضمون میں کہا ہے کہ پاکستان طویل عرصہ سے امریکا کا نان نیٹو اتحادی رہا ہے اس کے باوجود افغانستان میں طالبان کے ٹیک اور کے بعد امریکی حکومت میں کئی لوگ پاکستان کی طرف انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگارجوش روگن نے تحریر کیا کہ وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے اپنے ٹیلیفونک انٹرویو میں انہیں بتایا کہ تیزی سے بدلتی اس صورتحال میں امریکا اور پاکستان دونوں نے یہ ادراک کر لیا ہے کہ ان کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ ماضی میں باہمی تعلقات میں اتار چڑھائو کو نظر انداز کرتے ہوئے مل کر کام کریں۔
معید یوسف نے کہا کہ افغانستان میں عدم استحکام کے نتیجہ میں دہشت گردی، مہاجرین اور پاکستان کے لئے اقتصادی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ امریکا اور پاکستان کا مشترکہ مفاد افغانستان میں مل کر کام کرنے میں ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک اپنے باہمی تعلقات کو بہتر کریں۔معید یوسف نے سوال اٹھایا کہ موجودہ صورتحال میں امریکا اور پاکستان کے مفادات کیسے ہم آہنگ نہیں؟
قومی سلامتی کے مشیر نے دوٹوک انداز میں واضح کیا کہ میں پاکستان کے لئے کسی ہمدردی کا نہیں کہہ رہا۔ میں امریکا کے یکسر اپنے قومی مفادات کے حوالے سے بات کر رہا ہوں۔ پاکستان جیسے بڑے اور اہم ملک کو اپنے سے دور کر کے امریکا کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان خود اس صورتحال سے متاثر ہے۔ امریکا پر گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا اس کے باوجود ہم نے اس امریکا کا بھرپورساتھ دیا اور پاکستان کو اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑے تاہم ماضی قطع نظر ہمیں اس ضمن میں کام کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم شراکتداروں کے طور پر کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں اس لئے کہ خطے میں استحکام کے حوالے سے دونوں ملکوں میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کے بغیر پیش رفت نہیں کر سکتا۔افغانستان میں امریکا کی حمایت یافتہ حکومت نے اپنی نااہلی، بدعنوانی اور عدم مقبولیت کی پردہ پوشی کے لئے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا۔
معید یوسف نے کہا کہ امریکا کی درخواست پر پاکستان نے طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کیا پھر پاکستان کو ان مذاکرات سے علیحدہ کر دیا گیا اور اب نتائج کی ذمہ داری اس پر عائد کی جارہی ہے۔معید یوسف نے استفسار کیا کہ کیا پاکستان نے افغانستان کی قومی فوج سے کہا تھا کہ وہ نہ لڑیں؟ کیا افغان صدر اشرف غنی کو ملک چھوڑنے کے لئے پاکستان نے کہا تھا؟ افغان ریاست کا شیرازہ ایک ہفتے میں بکھر گیا۔ جب مغربی ممالک کی طرف سے اپنے ٹیکس دہندگان کو صورتحال سے آگاہ کرنے کا وقت آیا تو یہ بات واضح ہوئی کہ یا تو کوئی جھوٹ بول رہا تھا، یا غلط بیانی کر رہا تھا، یا حقائق بارے غلط فہمی کا شکار تھا ۔
پاکستان بھی یہ چاہتا ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنی سفارتی اور اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ کرے اور طالبان کے ساتھ سفارتی روابط کا طریقہ وضع کرے۔امریکا کو نئے حکمرانوں کو سزا دینے کے لئے افغانستان کوتنہا نہیں کرنا چاہیئے۔اب جب کہ سارا ملک طالبان کے پاس ہے انہیں پاکستان کی حکومت کی اتنی ضرورت بھی نہیں، معاونت اوراعتراف کو بروئے کار لانا ہے ۔یہ کون کر سکتا ہے؟ پاکستان سے زیادہ مغربی ممالک افغانستان میں اسکو موثر انداز میں بروئے کار لانے کی پوزیشن میں ہیں۔
مضمون کے مطابق افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکا کے سابق سفیر ریان سی کروکر نے بھی گزشتہ ہفتے نیو یارک ٹائمز میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ 1990کے عشرے میں پاکستان کے ساتھ اشتراک عمل کو ختم کر کے امریکا نے غلطی کی تھی اور اگر وہ اب پھر ایسا کرے گا توایک بار پھر وہی غلطی کرے گا۔
سابق امریکی سفیر نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اس بڑھتے ہوئے خطرے کا اندازہ لگانے اور اس سے نمٹنے کے طریقوں کی تلاش کے لئے پاکستان کے ساتھ مل کر کا م کرنا ہوگا۔ 21کروڑ آبادی اور ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ملک کے لئے پرتشدد عدم استحکام کے امکانات دنیا کے لئے کوئی خوشگوار نہیں ہوں گے۔
معید یوسف نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات صرف افغانستان تک محدود نہیں ہونے چاہیں دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کا دائرہ کار اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔لیکن اس کے لئے امریکا کا پہلے 1990 کے عشرے سے سبق سیکھنا ہو گا جب اس نے افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اس کے نتائج بھی ویسے ہی ہوں گے۔اگر افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ کر اس میں سکیورٹی خلا پید اکر دیا جاتا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ یہ دہشت گرد گروہ خطے میں دوبارہ جڑ پکڑ سکتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں ہونے دینا چاہیے۔