لاہور: (مہروز علی خان، طارق حبیب، وقاص بٹ) تحریک انصاف کو اقتدار میں آنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا پیش آیا۔ مالی سال 2018 میں ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سطح 19.9 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح کو پہنچ گیا تھا، جس میں کمی لانے کیلئے حکومت کی جانب سے معاشی اقدامات کیے گئے۔
اس خسارے کی کمی میں ایک اہم کردار ملکی درآمدات میں کمی کے باعث ہوا۔ پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو مالی سال 18 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ریکارڈ 19.9 ارب ڈالر پر تھا، جو مالی سال 19 میں 28 فیصد کمی کے ساتھ 13.4 ارب ڈالر پر آ گیا۔ اسی طرح گزشتہ مالی سال کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں ریکارڈ 67 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی، اور مالی سال 2020 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 9 ارب ڈالر کم ہو کر 4.4 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ مالی سال کے ابتدائی دس ماہ کے عرصے میں جولائی سے اپریل کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ 77 کروڑ 30 لاکھ ڈالر سرپلس رہا۔ یوں ملک میں 17 برس کے بعد کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی ترسیلاتِ زر میں ریکارڈ اضافہ تھا، تاہم ملکی درآمدات میں اضافے کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر براہ راست اثر پڑا جس کے باعث گزشتہ مالی سال 2021 کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1.8 ارب ڈاکر کی سطح پر ریکارڈ ہوا۔
تجارتی خسارہ
مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے حکومت سنبھالنے سے قبل مالی سال 2018 میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 30.9 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر تھا۔ پاکستان کی تجارتی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ چند سالوں میں ملکی درآمدات میں برآمدات کی نسبت کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے کے بعد ایک جامع تجارتی پالیسی مرتب کی جس کے نتیجے میں ملکی برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان اقدامات کے باعث ملکی تجارت میں اضافہ نظر آنے لگے اور مالی سال 2019 میں تجارتی خسارہ 10 فیصد کمی کے ساتھ 27.6 ارب ڈالر کو پہنچ گیا۔ اسی طرح مالی سال 2020 میں تجارتی خسارہ 23 فیصد کی تاریخی کمی کے ساتھ 21.1 ارب ڈالر کی سطح کو پہنچ گیا۔ مالی سال 2020 میں تجارتی خسارے میں ریکارڈ کمی کی بڑی وجہ اس سال درآمدات میں 16 فیصد کمی تھی۔ مالی سال 2020 میں درآمدات 51.8 ارب ڈالر سے کم ہو کر 43.6 ارب ڈالر کو پہنچ گئی جس کے باعث تجارتی خسارے کو کم کرنے میں آسانی رہی۔ تاہم، گزشتہ مالی سال 2021 کے دوران تجارتی خسارے میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کے نتیجے میں سالانہ تجارتی خسارہ 33 فیصد اضافے کے ساتھ 28.1 ارب ڈالر کی سطح کو عبور کر گیا۔
کاروبار دوست ملک
پاکستان تحریک انصاف کے منشور کا ایک بنیادی نکتہ پاکستان کو کاروبار دوست ممالک کی عالمی درجہ بندی میں 147 ویں ملک سے 100ویں نمبر پر لانا تھا۔ گزشتہ 3 سالوں کی رپورٹس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان نے اس سلسلے پیشرفت کی ہے۔ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کی کاروبار دوست ممالک کی فہرست میں 11 درجے ترقی ہوئی اور پاکستان 147 پوزیشن سے 136 پوزیشن پر براجمان ہو گیا۔ اسی طرح 2018 کے مقابلے میں پاکستان 28 درجے بہتری کے بعد108 ویں پوزیشن پر آگیا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کی جانب کاروبار کے حوالے سے 112 اصلاحات کی گئی ہیں۔ تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کے بعد "ڈوئنگ بزنس ریفارم اسٹریٹیجی 2021-2018" متعارف کرائی جس کے تحت ملک میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کیلئے دوست ماحول فراہم کرنا تھا، تا کہ ملک کی معاشی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس حکمت عملی کے تحت وفاقی اور صوبائی سطح پر اصلاحی اقدامات کیے گئے۔ ان اصلاحات میں ٹیکنالوجی میں بہتری اور کاروبار کا آغاز کرنے کے طریقہ کار کو آسان بنانا تھا۔ کاروبار دوست ممالک کی عالمی درجہ بندی میں بہتری میں ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کی مد میں کی جانے والی قانون سازی اور آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کا اہم کردار ہے۔ اس کامیابی میں پارلیمان سمیت بہت سے اداروں کا بھی مشترکہ کردار ہے،جن میں سرمایہ کاری بورڈ، ایس ای سی پی اور پنجاب آئی ٹی بورڈ وغیرہ شامل ہیں۔ کاروباری سرگرمیوں سے منسلک حکومتی اداروں کی ڈیجیٹلائزیشن اور ون-ونڈو آپریشن جیسے اقدامات نے پاکستان میں کاروباری آسانیاں پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام میں مختص کی گئی رقم
پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے قبل گزشتہ حکومت نے پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کیلئے وفاقی بجٹ سے ریکارڈ 750 ارب روپے مختص کیے۔ تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کے بعد ترقیاتی کاموں کو اہمیت دینے پر زور دیا اور مالی سال 2019 میں پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کیلئے مختص رقم کو بڑھا کر 800 ارب روپے پر لے گئی، البتہ صرف 677 ارب روپے ہی خرچ کر سکی۔ اسی طرح مالی سال 2020 میں حکومت کی جانب سے پی ایس ڈی پی کیلئے 701 ارب روپے مختص کیے گئے جس میں سے صرف 644 ارب روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔ مالی سال 2021 میں حکومت نے ترقیاتی پروگراموں کیلئے مختص کی جانے والی رقم میں کمی کر کے پی ایس ڈی پی کو 650 ارب روپے کر دیا، جس کو دہرا کر 20 ارب روپے کی کمی کے ساتھ 630 ارب روپے کر دیا گیا۔ موجودہ مالی سال میں حکومت نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کیلئے مختص کی جانے والے رقم میں 40 فیصد اضافہ کر کے 900 ارب روپے کر دیا ہے۔ وزارت منصوبہ بندی کے مطابق پی ایس ڈی پی میں اضافے کا بنیادی مقصد ملک میں جاری ترقیاتی منصوبوں میں تیزی لانا ہے، جس سے روز گار کے نئے مواقع مہیا ہوں گے۔
دفاعی اخراجات کا گزشتہ تین سالوں کا تقابلی جائزہ
وہ بجٹ جو کوئی ریاست اپنی حفاظت کیلئے مسلح افواج آرمی، نیوی اور ایئر فورس پر خرچ کرتی ہے، اسے دفاعی بجٹ کہا جاتا ہے۔ پاکستان کو وفاعی اعتبار سے جن حالات کا سامنا ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے پہلے دور حکومت میں ملک کا دفاعی بجٹ 1137 ارب روپے تھا جو اس وقت ملکی جی ڈی پی کا 2.8 فیصد تھا۔مالی سال 2020 میں ملکی دفاعی بجٹ میں 8 فیصد اضافہ کر کے اسے 1213 ارب روپے کر دیا گیا۔ گزشتہ مالی سال 2021 میں دفاعی بجٹ کو 5 فیصد اضافے کے ساتھ 1295 ارب پر کر دیا گیا، جو پاکستان کی جی ڈی پی کا 2.7 فیصد ہے۔حالیہ بجٹ میں دفاعی اخراجات کی مد میں 75 ارب روپے کا مزید اضافہ کر کے مالی سال 2022 کیلئے 1370 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان کا دفاعی بجٹ ملک کے کل اخراجات کا 17.67 فیصد ہے۔ تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے ، تاہم فوجی جوانون پر اٹھنے والے اخراجات دیگر ممالک کی نسبت کم ہے۔ مثلاً امریکا میں ہر فوجی جوان پر 3 لاکھ 92 ہزار ڈالر ، بھارت میں 42 ہزار ڈالر جبکہ پاکستان میں ہر فوجی جوان پر صرف ہونے والی رقم 12 ہزار 500 ڈالر ہے۔
وفاقی بجٹ خسارہ،جی ڈی پی کا کتنا فیصد رہےگا؟
پاکستان تحریک انصاف کے حکومت میں آنے سے قبل وفاقی بجٹ خسارہ اپنی تاریخی سطح پر تھا۔ مالی سال 2018 میں گزشتہ حکومت کے آخری ادھوار میں پاکستان کا بجٹ خسارہ 1 ہزار 892 ارب روپے تھا۔ اسی طرح ملکی جی ڈی پی کا کل حجم 34 ہزار 396 ارب روپے تھا، یوں موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل مالی خسارہ جی ڈی پی کا 5.5 فیصد تھا۔ عمران خان کے برسر اقتدار میں آنے کے بعد ملکی جی ڈی خسارے کو کم کرنے کیلئے ٹیکس کولیکشن نظام میں بہتری کرنے، حکومتی اخراجات میں کمی کے ساتھ ٹیکس نیٹ ورک کو وسیع کرنے کیلئے اقدامات تو کیے گئے لیکن اس سب کے باوجود ملکی بجٹ خسارے کی جانب ہی گامزن رہا۔ وفاقی محکمہ فنانس کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو مالی سال 2019 میں حکومت نے بجٹ خسارہ 1 ہزار 892 ارب روپے تک رکھنے کی توقع رکھی جبکہ ملکی جی ڈی پی جو 38 ہزار 388 ارب روپے مقرر کی گئی تھی۔ یوں حکومت نے مالی سال 2019 میں بجٹ خسارہ 4.9 فیصد طے کیا تھا۔ البتہ نظر ثانی کے بعد بجٹ خسارہ 2 ہزار 776 ارب روپے کی سطح کو پہنچ گیا جو کہ اس مالی سال میں ملکی جی ڈی پی کا 7.2 فیصد بنا۔ کچھ ایسا ہی مالی سال 2020 کے دوران ہوا جب حکومت کی جانب سے بجٹ خسارہ 3 ہزار 137 ارب روپے مقرر کیا گیا، جو کہ ملکی جی ڈی پی کا 7.1 فیصد تھاجبکہ ملکی جی ڈی پی کا حجم 44 ہزار ارب طے کیا گیا۔ البتہ ایک دفعہ پھر ان اعدادوشمار میں نظر ثانی کی گئی اور بجٹ خسارہ 3 ہزار 800 ارب روپے کو عبور کر گیا، جبکہ ملکی جی ڈی پی 41 ہزار 727 ارب روپے تک آ پہنچا۔ یوں مالی سال 2020 کے دوران ملکی بجٹ خسارہ ملکی جی ڈی پی کا 9.1 فیصد رہا۔ گزشتہ مالی سال میں ملکی بجٹ خسارہ مزید اضافے کے ساتھ 3 ہزار 195 ارب روپے کو پہنچ گیا جو کہ ملک کی کل جی ڈی پی کا 7 فیصد ہے ، جبکہ حکومت نے گزشتہ مالی سال 2021 میں جی ڈی پی کا کل حجم 45 ہزار 567 ارب روپے مقرر کیا۔ پاکستان کے اداراہ شماریات کے جاری کردہ اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو ملکی جی ڈی پی 47 ہزار 709 ارب روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔اگر تحریک انصاف کے تقریباً تین سال دورِ اقتدار کا موازنہ کیا جائے تو ملک کا بجٹ خسارہ 1 ہزار 892 ارب روپے سے بڑھ کر 3 ہزار 195 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ یوں حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد بجٹ خسارے میں 59 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رواں مالی سال 2022 میں حکومت نے بجٹ خسارے میں ایک بار پھر اضافہ کرتے ہوئے اسے 3 ہزار 420 ارب روپے طے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔کورونا وباء کے باعث عالمی سطح پر معاشی سرگرمیاں جمود کا شکار ہوئیں۔ کورونا سے متاثر ممالک اپنے اپنے ملکوں میں لاک ڈاؤن لگانے پر مجبور ہوئے اور ہر طرح کی بین الاقوامی آمد و رفت پر پابندی عائد کر دی گئ۔ پاکستانی انڈسٹریز کو بیرون ممالک سے ملنے والے بیشتر آرڈرز منسوخ ہوئے جس کے باعث پاکستان کی صنعتی اشیاءکی برآمدات بڑی حد تک متاثر ہوئیں، جبکہ خام مال کی درآمد بھی التوا کا شکار ہوئی۔ تاہم، پاکستان اور دیگر ممالک کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے باعث صنعتی شعبے میں مثبت اثرات پیدا ہوئے جس کے سبب صنعتی شعبے نے گزشتہ مالی سال کے دوران 200 فیصد ترقی کی۔ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے قبل مالی سال 2018 میں صنعتی ترقی کی شرح 4.61 فیصد تھی۔ تاہم تحریک انصاف کے حکومت سنبھالنے کے ایک سال بعد مالی سال 2019 میں یہ ملکی صنعتی ترقی کی شرح میں ریکارڈ کے ساتھ منفی 1.56 فیصد تک جا پہنچی، جبکہ مالی سال 2020 میں صنعتی ترقی کی شرح مزید گراوٹ کے ساتھ منفی 3.77 فیصد کی سطح کو پہنچ گئی۔ البتہ، مالی سال 2021 میں پاکستان کی صنعتی ترقی کی شرح 200 فیصد اضافے کے ساتھ 3.57 فیصد پر پہنچ گئی۔