اسلام آباد: (دنیانیوز) فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔
ڈاکٹر مارکوس پلیئر کی صدارت میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا پلینری ورچوئل اجلاس ہوا ، اجلاس میں عالمی اداروں نے شرکت کی۔
عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کی مالی معاونت کے تدارک کی نگرانی کرنے والے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی طرف سے پاکستان کو مزید چار ماہ کے لیے نگرانی کی گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے گا۔ پاکستان کے سٹیٹس میں تبدیلی کا فیصلہ اب آئندہ سیشن ہو گا جو فروری 2022ء میں ہو گا۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر مارکوس پلیئر نے کہا کہ پاکستان گرے لسٹ میں رہے گا، پاکستان کو جون میں ایف اے ٹی ایف کے ریجنل شراکت دار اے پی جی کی نشان دہی پر ایکشن پلان میں بڑی حد تک منی لانڈرنگ کے مسائل تھے۔ پاکستان مجموعی طور پر اس نئے ایکشن پلان پر بہتر کار کردگی دکھا رہا ہے۔ اس میں حکام کی فنانشل نگرانی اور بین الاقوامی تعاون کے لیے قانونی ترامیم شامل ہیں۔
فیٹف کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے 34 میں سے 30 نکات پر عمل در آمد کر لیا ہے جس سے پاکستانی حکومت کا عزم واضح ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کے حوالے سے کوئی گفتگو نہیں ہو رہی۔ پاکستانی حکومت ہمارے ساتھ تعاون کر رہی ہے اور ہم انہیں کہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد باقی چار نکات پر عمل در آمد کریں۔
انہوں نے کہا کہ ترکی کو منی لانڈرنگ کے خلاف قوانین پر عمل درآمد بہتر کرنا ہوگا۔ زمبابوے نے بہتر کارکردگی دکھائی، مالی، اردن اور ترکی نے نظام بہتر کیا ہے۔ ماریشیئس کو گرے لسٹ سے نکال رہے ہیں۔ آف شور کمپنیوں میں سرمائے کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے، آف شور کمپنیوں میں منی لانڈرنگ کے سرمائے کا جائزہ لیں گے۔ منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے مشترکہ کوششیں کررہے ہیں، منی لانڈرنگ کی روک تھام میں پینڈوارا پیپرز نے بھی معاونت کی۔
واضح رہے کہ ایف اے ٹی ایف کے جون کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے دو ایکشن پلان دیے گئے تھے۔ پاکستان کے لیے ضروری تھا کہ دونوں ایکش پلان پر مکمل عملدرآمد ہو۔ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف اور ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کی میوچل ایوالیویشن جیسی دہری نگرانی کا سامنا ہے اور پاکستان دونوں محاذوں پر کام کر رہا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے پہلے ایکشن پلان کا ہدف دہشت گردوں کی مالی اعانت کو روکنا تھا جبکہ نئے دیے گئے ایکشن پلان میں توجہ منی لانڈرنگ کے تدارک پر ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے سربراہ نے جون کے مہینے میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان پر زور دیا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی طرف سے دیے گئے دونوں ایکش پلان پر جلد از جلد عمل در آمد کیا جائے۔
خیال رہے کہ جون کے مہینے کے رپورٹ میں انسداد دہشت گردی کے ایکشن پلان کے نکتے کے علاوہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے ذیلی ادارے ایشیا پیسیفک گروپ کے باہمی جائزے میں بھی 40 سفارشات پر عمل کرنا تھا جس میں زیادہ تر کا تعلق منی لانڈرنگ سے تھا۔
اس حوالے سے پاکستان کو 6 نکاتی نیا ایکشن پلان دیا گیا تھا۔ پلان کے مطابق پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی خامیوں کو دور کرنا تھا۔ جو مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ منی لاندڑنگ کے قوانین میں ترمیم کرکے بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیا جائے۔
2۔ ثابت کیا جائے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے نامزد افراد کے خلاف بین الاقوامی تعاون لیا جا رہا ہے۔
3۔ ثابت کیا جائے کہ ملک میں غیر مالیاتی کاروبار اور پروفیشنل افراد جیسے ریئل سٹیٹ ایجنٹس، جوہرات کے ڈیلرز، وکلا، اکاؤنٹنٹس اور دوسرے پیشہ ور افراد کے حوالے سے لاحق خطرات کا جائزہ لینے کے لیے ایسے افراد کی نگرانی اور ان کے خلاف ایکشن کا طریق کار موجود ہے۔
4۔ بے نامی جائیدادوں وغیرہ کے خاتمے کے لیے ایسے افراد کے خلاف کارروائی کا نظام وضع کیا جائے۔
5۔ منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیقات ان کے اثاثے ضبط کرنے اور سزائیں دینے کے عمل میں دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔
6۔ غیر مالیاتی کاروبار اور پروفیشنل افراد کی نگرانی کرتے ہوئے یقینی بنایا جائے کہ وہ ایٹمی مواد کے پھیلاؤ کو روکنے کے حوالے سے قواعد پر عمل کر رہے ہیں اور جو ایسا نہ کریں ان کے خلاف پابندیاں لگائی جائیں۔
پاکستان کو کب گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا؟
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو جون 2018ء میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا تھا۔
ایف اے ٹی ایف کیا ہے؟
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک عالمی ادارہ ہے، جس کا قیام 1989ء میں جی ایٹ سمٹ کی جانب سے پیرس میں عمل میں آیا، جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کی روک تھام تھا۔ تاہم 2011 میں اس کے مینڈیٹ میں اضافہ کرتے ہوئے اس کے مقاصد بڑھا دیے گئے۔ ان مقاصد میں بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھنے اور اس حوالے سے مناسب قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات طے کرنا تھا۔ ادارے کے کُل 38 ارکان میں امریکا، برطانیہ، چین اور بھارت بھی شامل ہیں جبکہ پاکستان اس کا رکن نہیں۔