اسلام آباد:(دنیا نیوز) سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ چاہتے ہیں آرٹیکل تریسٹھ اے پر جلد از جلد اپنی رائے دیں، ضمیر اور آئین کے مطابق جو درست لگتا ہے وہ کرتے ہیں، ملک کو میچور جمہوریت کی طرف لیکر جانا ہوگا، سیاستدانوں کو قربانیاں دینا ہوں گی۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے۔ کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی گئی۔
آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی، پاکستان تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیئے کہ 63 اے کو شامل کرنے کا مقصد ہارس ٹریڈنگ کو ختم کرنا تھا، 63 اے کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے۔
علی ظفر کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ 63 اے کے تحت ووٹ کاسٹ ہوگا لیکن شمار نہیں کیا جائے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ووٹ شمار کرنا اور انحراف کرنا دو مختلف چیزیں ہیں، اگر سیاسی جماعت کی کوئی ہدایت ہی نہ ہو تو ووٹ گنا جائے گا یا نہیں؟ آئین میں 63 اے شامل کرنے کا مقصد انحراف کے کینسر کو ختم کرنا تھا۔
تحریک انصاف کے وکیل نے جواب دیا کہ پہلے سربراہ ہدایات جاری کرے گا، پھر ممبران کے خلاف ڈیکلریشن جاری کرے گا۔ جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ کیا ڈیکلریشن کی عدم موجودگی میں بھی ووٹ نہیں گنا جائے گا، اگر ووٹ گنا نہ جائے تو مطلب جرم ہی نہیں کیا، 63 اے میں بتایا گیا ہے کہ ووٹ کاسٹ کرلیں گے لیکن سیٹ چلی جائے گی، ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد پارٹی سربراہ پہلے شوکاز کے ذریعے جواب لے گا، پارٹی سربراہ جواب سے مطمئن ہو کر شوکاز ختم بھی کر سکتا ہے۔
جسٹس جمال خان نے ریمارکس دئیے کہ کیا سیاسی جماعت اس کینسر کا علاج خود نہیں کر سکتی، ہمارے سامنے اکثر جماعتیں آپ کے موقف کے خلاف ہیں، آپ کیا توقع کر رہے ہیں ہم اکثریت کو چھوڑ کر آپ کی بات مانیں گے، صرف ایک سیاسی جماعت منحرف اراکین اسمبلی کے خلاف ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ق نے علی ظفر کے دلائل اپناتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے تحریک عدم اعتماد کیخلاف حفاظتی دیوار ہے، جمہوریت کے چیمپئن بننے والوں نے مینڈیٹ کے احترام کا معاہدہ کیا تھا، لیکن عملی طور پر جو کچھ کیا گیا وہ میثاق جمہوریت کیخلاف ہے۔
مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دئیے کہ قومی اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوتی ہے، اسمبلی کی مدت تک ہی منحرف رکن نااہل ہو سکتا، ریفرنس سابق وزیراعظم کو عدم اعتماد سے بچانے کے لیے دائر کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چاہتے ہیں آرٹیکل 63 اے پر جلد از جلد اپنی رائے دیں، ضمیر اور آئین کے مطابق جو درست لگتا ہے وہ کرتے ہیں، دعا ہوتی ہے کہ ہمارے فیصلوں سے ملک میں بہتری ہو۔ ملک کو میچور جمہوریت کی طرف لیکر جانا ہوگا، اسکے لئے ضروری ہے قانون ساز سیر حاصل گفتگو کریں، سیاستدانوں کو قربانیاں دینا ہوں گی۔