دُعا کے آداب

Published On 06 May,2022 09:50 am

لاہور: (مفتی محمد قمر الزمان) انسان کی فطرت میں ہے کہ جب وہ کسی مصیبت اور آزمائش میں گرفتار ہوتا ہے اور تمام دنیاوی اسباب سے وہ مایوس ہو جائے تو پھر ایک ایسی ان دیکھی طاقت سے امید لگاتا اور دعا کرتا ہے کہ جس کے متعلق اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ تمام اسباب سے بڑھ کر اور تمام طاقتوں سے مضبوط ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہی طاقت اس کا سہارا بھی بنے گی اور اسے مصیبت سے نجات دے گی۔ وہ ان دیکھی طاقت مختلف مذاہب میں مختلف ناموں سے موجود ہے حتیٰ کہ وہ لوگ جو کسی خدا کے قائل نہیں وہ بھی’’قدرت‘‘ کے قائل ہیں۔ ان سب کے برعکس مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ ایک ان دیکھی طاقت خدا کی ذات ہے وہی ہے جو بے قرار و بے کس کی دعاؤں کو سنتا بھی ہے اور اس کی تکلیف و پریشانی کو دور بھی کرتا ہے۔

دُعا کیلئے اچھے اوقات کا خیال رکھے، با وضو قبلہ رخ ہو، پست آواز ہو، گڑگڑاتے ہوئے اور قبولیت کا یقین رکھتے ہوئے دُعا کرے، باربار دُعا کرے، دُعا کی ابتداء اللہ کاذکر کرنے اور نبی اکرمﷺ پر درود پاک بھیجنے نیز گناہوں کوچھوڑنے کا پختہ ارادہ کرتے ہوئے دُعا مانگے۔

جتنے بھی آداب دُعا ہیں وہ سب قبولیت کا سبب ہیں۔ اگر دُعا میں ان کو جمع کر لیا جائے تو انشاء اللہ دُعا کی قبولیت کا باعث ہوں گے۔ بعض آداب ایسے ہیں جو دُعا میں شرط کی حیثیت رکھتے ہیں، جیسے یکسوئی کے ساتھ دُعا کرنا، سرکار دوعالم ﷺ پر درود شریف پڑھنا اور دیگر نیک امور بجا لا کردُعا کرنا۔ حضورِ قلب ہی ہے جس کی نسبت خود حدیث میں ارشاد ہوا ’’بیشک اللہ تعالیٰ دُعا قبول نہیں فرماتا کسی غافل کھیلنے والے دل کی‘‘ (سنن الترمذی، حدیث: 3490)

اگر دعا شرائط و آداب سے خالی ہو تو اس کی قبولیت کی امید نہیں، ہاں البتہ کرم و رحمتِ الٰہی ہو جائے یا دُعاکی قبولیت کی گھڑی ہو اور دُعا قبول ہو جائے تو اور بات ہے۔

دل کو حتی الامکان دوسروں کے خیالات سے پاک کریں۔ اللہ کا خاص نظر کرم فرمانے کی جگہ دل ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتا، البتہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ ( صحیح مسلم: 2564)

بدن و لباس و مکان، پاک و نظیف و طاہر ہوں کہ اللہ تعالیٰ نظیف ہے، نظافت کو دوست رکھتا ہے۔ دُعا سے پہلے کوئی عملِ صالح کرے کہ خدائے کریم کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہو۔ صدقہ، خصوصاً پوشیدہ، اس امر میں اثر ِتمام رکھتا ہے یعنی دُعا کی قبولیت میں بہت مؤثر ہے۔ ’’اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو‘‘ (سورۃ المجادلہ: 12)

جن کے حقو ق اس کے ذمہ ہوں، ادا کرے یا اْن سے معاف کرالے۔ خلق (یعنی بندوں)کے مطالبات گردن پر لے کر دُعا کیلئے ہاتھ اٹھانا ایسا ہے جیسے کوئی شخص بادشاہ کے حضور بھیک مانگنے جائے اور حالت یہ ہو کہ چار طرف سے لوگ اسے چمٹے داد و فریاد کا شور کر رہے ہیں۔ غور کرے وہ شخص جو بادشاہ کے حضور حاضر ہو کر فریاد کر رہا ہے اور حالت یہ ہے کہ اس نے کسی کا مال لوٹاکسی کو گالی دی، آیا وہ انعام دیئے جانے اور مہربانی کئے جانے کا مستحق ہے یا سزا دیئے جانے کا!۔ اور اللہ تعالیٰ عظمت والا ہمیں کافی ہے)

کھانے پینے، لباس وکسب میں حرام سے احتیاط کرے کہ حرام کھانے والے اور حرام کام کرنے والے کی دُعا اکثر رد ہوتی ہے۔ دعا سے پہلے گزشتہ گناہوں سے توبہ کرے کہ نافرمانی پر قائم رہ کر عطا مانگنا بے حیائی ہے۔

وقتِ کراہت نہ ہو تو دورکعت نماز خلوصِ قلب سے پڑھے اگر مکروہ وقت نہ ہو تو دُعا سے پہلے اِخلاص کے ساتھ دو رکعت نفل نماز پڑھے کہ رحمتِ الٰہی عزوجل کا سبب ہے، اور رحمت، نعمتِ الٰہی کے حصول کا باعث ہے۔

دُعا کے وقت باوضو، قبلہ رو، مودَّب (باادب) دو زانو بیٹھے یا گھٹنوں کے بل کھڑا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دُعا و التجا کرنے کی توفیق ملنے پر، سجدہ شکر کی نیت سے سجدہ کرے کہ بندہ سجدے میں سب سے زیادہ اپنے رب کے قریب ہوتاہے، جیسا کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ اس سے زیادہ کبھی اپنے رب سے قریب نہیں ہوتا، تو سجدے میں دُعا زیادہ مانگو‘‘۔

دعا مانگتے وقت ظاہر بدن سے عاجزی و انکساری کا اظہار ہو اور دل حاضر ہو۔ حدیث میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ غافل دل کی دُعا نہیں سنتا‘‘ (سنن الترمذی، حدیث: 3490)

اے عزیز! حَیف (افسوس) ہے کہ زبان سے اس کی قدرت وکرم کا اِقرار کیجئے اور دل اوروں کی عظمت اور بڑائی سے پُر ہو۔ بنی اسرائیل نے اپنے پیغمبر سے شکایت کی کہ ہماری دُعا قبول نہیں ہوتی ،جواب آیا: میں ان کی دُعا کس طرح قبول کروں کہ وہ زبان سے دُعا کرتے ہیں اور دل ان کے غیروں کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ (روح البیان، ج3، ص178)

ایک دن حضر ت خواجہ سفیان ثوری قدّس سرّہؒ نماز پڑھاتے تھے، جب اس آیت پر پہنچے ’’تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اورتجھ سے ہی ہم مدد چاہتے ہیں‘‘، روتے روتے بے ہوش ہوگئے، جب ہوش میں آئے، لوگوں نے حال پوچھا، فرمایا:اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ اگر غیب سے ندا ہو: اے کاذب خموش! کیا ہماری ہی سرکار تجھے جھوٹ بولنے کیلئے رہ گئی، را ت دن رزق کی تلاش میں کُو بکُو (در بدر) پھرتا ہے اور بیماری کے وقت طبیبوں سے التجاء کرتا ہے اور ہم سے کہتا ہے: ’’میں تیری عبادت کرتا ہوں اور تجھ سے ہی مدد چاہتا ہوں‘‘ تو میں اس بات کا کیا جواب دوں؟

اپنے دل و زبان اور اپنے ظاہر وباطن کو ایک سا کرے کہ جو زبان سے مانگے دل بھی اسی کی طرف متوجہ ہو اور اللہ عزوجل کے سوا سب سے امید منقطع کر کے اپنی امیدگاہ صرف اسی کی ذات کو بنائے اور مراد بر آنے تک اپنی اسی کیفیت کو برقرار رکھے)۔

انتہائی اہم ترین ہدایت

غیر خدا کو مُعِین و مددگار ماننا اس طرح کہ وہی مْعِین و مددگار ہے ’’نظر بغیر‘‘ کہلاتا ہے اور اگر حقیقتاً اْسی غیرِ خدا کو بِالذَّات (یعنی اللہ عزوجل کی عطا کے بغیر) حقیقی مْراد اور مقصودِ اصلی سمجھ کر اپنا مْعِین و مددگار مانے تو یہ کْھلا کفر وشرک ہے۔

حمد کا مختصر وجامع کلمہ : میں تیری حمد وثنا ایسی نہیں کرسکا جیسی حمد و ثنا تو خود اپنے لئے کرتا ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث: 486)، اور اے اللہ! تیرے ہی لئے حمد و ستائش ہے جیسا کہ توخود فرمائے اور اس سے بہتر ہے جو ہم کہیں۔ (سنن الترمذی، حدیث: 3531) ، رب ہمارے! ساری خوبیاں تجھی کو کہ تیری نعمتوں کے بدلے اور تیرے مزید انعامات کے مقابلہ میں ہوں۔ (الترغیب و الترہیب،حدیث: 2436)

اول وآخر نبی ﷺ اور ان کے آل و اصحاب پر درود بھیجئے کہ درود اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہے اور پروردگار کریم اس سے برتر کہ اول وآخر کو قبول فرمائے اور وسط (درمیان)کو رد کر دے۔ امیرالمومنین عمر ؓ کی حدیث میں ہے : ’’دعا زمین و آسمان کے درمیان روکی جاتی ہے جب تک تو اپنے نبی ﷺ پر درود نہ بھیجے بلند نہیں ہونے پاتی۔ (سنن الترمذی، حدیث: 486)
 

Advertisement