ماحولیاتی تبدیلی کا 'ٹائم بم': 25 سال سے اوسط درجہ حرارت بڑھ رہا ہے

Published On 10 May,2022 09:27 am

لاہور: (تنزیل الرحمن جیلانی) ماحولیاتی تبدیلی اس وقت دنیا کا سب سے اہم مسئلہ بنا ہوا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گرمی اور سردی کی شدت ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔گلوبل وارمنگ سے صرف گرمی میں ہی نہیں بلکہ سردی کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

ٹھنڈے ممالک کی بات کی جائے تو کینیڈا کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں اس قدر سرد موسم پایا جاتا ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں میں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہاں منفی30 درجہ حرارت معمول کی بات ہے۔اسی کینیڈا میں کچھ دن قبل 49.6درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ اس قدر شدید گرمی کی توقع اگر آپ مشرق وسطیٰ کے کسی ملک میں کریں تو یہ حیران کن نہیں ہو گا لیکن کینیڈا میںدرجہ حرارت 50 ڈگری تک پہنچنا،گرمی کی وجہ سے بجلی کی تاروں کا پگھلنا اور سڑکوں کا ٹوٹ جانا یقینا لمحہ فکریہ ہے۔کینیڈا کے جس علاقے میں یہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا ہے وہاں لوگ جولائی اور اگست میں بھی زیادہ سے زیادہ 28ڈگری درجہ حرارت کی توقع رکھتے ہیںیہی وجہ ہے کہ وہاں گھروں میں ائیر کنڈیشنر موجود نہیں۔

ہیٹ ویو کی وجہ سے اسی علاقے کے ساتھ موجود جنگل میں آگ لگی جس نے 90فیصد رہائشی علاقے کو جلا کر راکھ کر دیا۔ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ سب ایک ہیٹ ڈوم کی وجہ سے ہوا ہے۔گرم ہوا عموماً اوپر کی جانب اٹھتی ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہائی پریشر بنا جس نے اس گرم ہوا کو واپس نیچے کی جانب دھکیل دیا ۔ پریشر کی وجہ سے ہوا کمپریس ہوئی اور زیادہ گرم ہو گئی جس کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا۔ ماحولیاتی ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ ہم اس کا ذمہ دار صرف ہیٹ ڈوم کو قرار نہیں دے سکتے۔اس طرح کے واقعات ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے رونما ہو رہے ہیں ۔ ماہر ماحولیات مائیکل مان کے مطابق ہیٹ ویوزکا تناسب 1960ء کی نسبت تین گنا زیادہ ہو چکا ہے۔2015ء کو پیرس میں ہونے والے ماحولیاتی تبدیلی کے معاہدے پر 200 ممالک نے دستخط کئے تھے۔اس معاہدے میں یہ عہد کیا گیا تھا کہ عالمی درجہ حرارت کو دو ڈگری سے زیادہ نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔

دنیا کے مختلف حصوں میں یہ درجہ حرارت مختلف انداز میں بڑھ رہا ہے اور اس کے اثرات بھی ایک جیسے نہیں ہیں۔ اگر مشرق وسطیٰ میں درجہ حرارت 50 ڈگری تک پہنچ جائے تو اسے قابل برداشت سمجھا جاتا ہے کیونکہ صحرا کی وجہ سے وہاں خشک گرمی ہوتی ہے اور انسانی جسم پسینے کی مدد سے ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ اس لئے یہ گرمی جان لیوا ثابت نہیں ہوتی۔دنیا کے کچھ حصوں میں ہوامیں موجود نمی کا تناسب زیادہ ہونے کی وجہ سے پسینہ کم آتاہے،ان علاقوں میں 30 ڈگری سے زیادہ درجہ حرارت بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

مسلسل بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور ماحولیاتی تبدیلی کا ذمہ دار سورج کو قرار دے کر ہم بری الذمہ نہیں ہو سکتے کیونکہ ماحولیات کو تباہ کرنے میں سب سے زیادہ حصہ انسانوں نے خود ڈالا ہے۔ پچھلے25سال سے دنیا کا اوسط درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ہر سال گلیشیئر ز سے 413گیگاٹن برف پگھل رہی ہے۔ 1880ء سے لے کر اب تک دنیا کے اوسط درجہ حرارت میں ایک ڈگری سے زیادہ کا اضافہ ہو چکا ہے۔ بظاہر یہ بہت کم لگتا ہے لیکن حیران کن طور پرآئس ایج اور موجودہ وقت کے درجہ حرارت میں صرف9ڈگری کا فرق ہے۔

شمسی تابکاری کا صرف25.5فیصد حصہ ہی دنیاتک پہنچتا ہے ، گرین ہاؤ س گیسوں میں بھی مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔پچھلے ڈیڑھ سو سال میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار دوگنا ہو چکی ہے۔2018ء میں 3.71گیگاٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوا ، ہر سال تقریباًدو کروڑ ایکڑ جنگلات کی کٹائی کی جاتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ کی95فیصد ذمہ دار نسل انسانی ہے۔جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر بھی گلوبل وارمنگ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ کچرے سے میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 25گنا زیادہ گرمی پیدا کرتی ہے۔

ماہرین کے مطابق حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ انفرادی طور پر تبدیلی سے ماحول پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کیلئے حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج سے بچنے کیلئے الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال کیا جائے۔زیادہ سے زیادہ شجر کاری کی جائے۔اگر جلد از جلد عملی طور پر یہ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو دنیا کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ سکتاہے۔

تنزیل الرحمن نوجوان صحافی ہیں اور تحقیق کے شعبہ سے وابستہ ہیں