بجلی کی بڑھتی قیمتیں، نور عالم کا ملک ٹوٹنے کے خدشے کا اظہار

Published On 08 June,2022 04:54 pm

اسلام آباد:(دنیا نیوز) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بجلی بنانے والی تمام آئی پی پیز کمپنیوں سے ہونے والے معاہدوں کی تفصیلات طلب کرلی ہیں جبکہ چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے بجلی کی قیمتوں کے مسلسل بڑھتے رہنے کی وجہ سے ملک ٹوٹنے کے خدشے کا اظہار کر دیا۔

چیئرمین پی اے سی نورعالم خان کے زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں نور عالم خان نے کہا کہ دنیا بھر میں زیادہ بجلی استعمال کرنے پر سستی بجلی ملتی ہے جبکہ پاکستان میں مہنگی ملتی ہے، یہاں آئی پی پیزکو کیسپٹی پیمنٹ کے نام بجلی نہ بنانے پر بھی عوام کے ٹیکسوں سے پیسے دیئے جاتے ہیں، اب پھر 7 روپے یونٹ بجلی بڑھانے کی بات کی جارہی ہے، اگر بجلی مہنگی کرنے کا یہی سلسلہ جاری رہا تو اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے کہیں ایسے حالات پیدا نہ ہوجائیں کہ ملک ہی ٹوٹ جائے۔

اجلاس میں چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کہا کہ لگتا ہے چیئرمین نیپرا آپکی بجلی مفت ہے، جس پر چیئرمین نیپرا نے کہا کہ میری بجلی مفت نہیں، میرا خود 68 ہزار روپے بل آیا ہے، میرا بل میری تنخواہ کے اعتبار سے زیادہ آیا ہے۔ نور عالم خان نے کہا کہ آپکی تنخواہ کیا ہے، چئیرمین نیپرا نے جواب دیا میری تنخواہ 7 لاکھ اور کچھ ہزار ہے، چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ میری تنخواہ تو ڈیڑھ لاکھ ہے، آپ کی تو بہت زیادہ ہے، چئیرمین اوگرا آپ کی تنخواہ کتنی ہے، جس پر چیئرمین اوگرا نے کہا کہ میرے بنک میں میری تنخواہ گیارہ لاکھ روپے آتی ہے، میں جہاں سے آیا ہوں وہاں روپیوں میں تنخواہ زیادہ تھی، یورو میں لیتا تھا۔

اجلاس میں چیئرمین اوگرا نے کہا کہ پیٹرول کی اب بھی سبسڈی نو سے دس روپے فی لٹر ہے، ڈیزل پر پچیس چھبیس روپے سبسڈی دی جارہی ہے۔ نور عالم خان نے کہا کہ ملک کی معیشت غریب آدمی کی معیشت ڈیزل پر منحصر ہے، ہائی اوکٹین جتنا مرضی مہنگا کریں تاکہ بڑی گاڑیوں والوں کو پتہ چلے، غریب آدمی کی معیشت کا ڈیزل کم ہونا چاہئے۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ پی ایس او کے علاوہ نجی آئل کمپنیوں کو مارکیٹ کے مقابلے پر تیل بیچنے دیتے ہیں۔

اجلاس میں سینیٹرسلیم مانڈوی والا، مشاہد حسین سید، وجیہہ قمر، شاہدہ اختر نے شرکت کی، سیکرٹری کابینہ احمد نواز سکھیرا، چیئرمین نیپرا اور چیئرمین اوگرا نے بھی شرکت کی۔

چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ کچھ ذیلی اداروں کا پتہ چلا ہے کہ وہ آڈٹ نہیں کرانا چاہتے، آڈٹ تو سب کا ہوگا، اوگرا اور نیپرا آڈٹ حکام کیساتھ تعاون نہیں کرتے، سیکرٹری کابینہ نے کہا کہ ریگولیٹری اتھارٹیز عدالت کے پاس جانا چاہتی تھی لیکن انہیں روکا۔

نور عالم خان نے کہا کہ کیوں حکومتی اداروں کا آڈٹ نہیں ہو سکتا، جہاں پاکستانی پیسہ لگا ہوگا اسکا آڈٹ ہوگا، سیکرٹری کابینہ نے کہا کہ آڈیٹر جنرل آفس اور پی اے سی کا نقطہ نظر متعلقہ فورم پر لیکر جائیں گے، پندرہ بیس دن کا وقت دے دیں۔

اجلاس میں چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ پی ٹی اے کے خلاف مختلف موبائل و آئی ٹی کمپنیوں کے 345 مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، اٹارنی جنرل سے بار بار کہا عدالتوں میں مقدمات کے جلد فیصلوں میں کردار ادا کریں، بہت سے نادہندگان کے نام ای سی ایل پر بھی ڈال دیئے گئے۔

سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ بتایا جائے 345 مقدمات پر اخراجات کتنے ہوچکے ہیں، رکن پی اے سی شاہدہ اختر علی نے کہا کہ بہتر ہوگا اٹارنی جنرل کو پی اے سی میں بلا لیا جائے۔

چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ پی ٹی اے نے ایک اکاؤنٹس کے معاملے پر کیا کیا، ٹویٹر، فیس بک سے پاکستان مخالف مواد چلایا جاتا ہے، جس پر چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ سوشل میڈیا پر فیک اکاؤنٹ ہمیں رپورٹ ہونا ہے، اکاؤنٹس پر ہم دیکھتے ہیں کہ کانٹنٹ کیا ہے، فیک اکاؤنٹ پر ٹویٹر تھوڑا زیادہ وقت لیتا ہے اور فیس بک جلدی کارروائی کر دیتا ہے، ہر ماہ بارہ سے تیرہ ہزار رپورٹس مختلف پلیٹ فارمز کو بھیجتے ہیں، سترفیصد اس میں سے ریموو ہوتا ہے، 115 ملین انٹرنیٹ یوزر ملک میں ہیں جس میں 113 ملین موبائل پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، فائیو جی پر ابھی تک ہمیں پالیسی ڈائریکٹو نہیں ملا۔

پی اے سی نے آئی پی پیز کے تمام معاہدوں کی تفصیلات طلب کرلیں، چیئرمین نے کہا کہ بعض آئی پی پیز کو بجلی استعمال نہ کرنے کے باوجود بھی پیسے دیئے جا رہے ہیں، جب عوام بجلی لے نہیں رہے تو آئی پی پیز کو پیسے کیوں دیں، چیئرمین نیپرا نے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ سی پی پی اے کیپسٹی پیمنٹ جارجز کے معاہدے کرتی ہے ۔

رکن پی اے سی شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ اس وقت ملک میں کتنے فیصد بجلی چوری ہو رہی ہے، چیئرمین نیپرا نے کہا کہ ڈسکوز کو 13 فیصد بجلی لائن لاسز کی رعائت ہے مگر عملاً بجلی کا نقصان 17 فیصد پایا گیا، اس وقت سب سے زیادہ بجلی کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی میں چوری ہو رہی ہے، کیسکو میں 65 فیصد بجلی چوری ہو رہی ہے، بجلی صارفین کو نیٹ میٹرنگ کی سہولت دینے سے نقصان ہو رہا ہے، صارفین اپنی بجلی بھی پیدا کر رہے ہیں اور بیچ بھی رہے ہیں، بجلی صارفین کے لئے کافی موجود ہے، اکتالیس ہزار بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے، اگر اکتالیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے تو پھر لوڈشیڈنگ کیوں ہو رہی ہے، تیل کی کمی کی وجہ سے بجلی پیدا نہیں ہو رہی ہے ۔
 

Advertisement