لاہور: (دنیا نیوز) ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی صحت خراب ہے، آرمی لیڈرشپ کا مؤقف ہے انہیں واپس آجانا چاہیے اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے معاملے پر مبینہ امریکی سازش کے بیانیے کو مسترد کرتے ہیں۔
دنیا نیوز کے پروگرام ’آن دی فرنٹ’ میں میزبان کامران شاہد سے گفتگو کرتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف امریکی سازش کے بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پہلے بھی واضح کر چکا ہوں، میٹنگ میں عسکری قیادت موجود تھی اور وہاں بتایا گیا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی اور اس کے شواہد بھی نہیں ہیں، ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں دن رات یہی کام کرتی ہیں، اور ہمارے دشمنوں کے عزائم خاک میں ملانا ہماراکام ہے، سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا قومی سلامتی میٹنگ میں کسی نے نہیں کہا سازش نہیں ہوئی، کسی قسم کی سازش ہوئی اور نہ ہی شواہد ملے۔ اجلاس کے دوران تینوں سروسز چیفس موجود تھے۔ شرکا کو ایجنسیز کی طرف سے آگاہ کیا گیا۔ کسی قسم کے سازش کے شواہد نہیں ہیں۔ ایسا کچھ نہیں، میٹنگ میں واضح بتا دیا گیا کہ سازش کے شواہد نہیں ملے۔ حقائق کو مسخ کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے افواج پاکستان اور لیڈر شپ کو پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اپنی رائے کا حق سب کو ہے لیکن جھوٹ کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔
سازش اور مداخلت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ترجمان پاک فوج نے کہا کہ اتنا کہنا چاہوں گا یہ سفارتی لفظ ہے، ڈپلومیٹکلی اس طرح کی چیزوں کو استعمال کیا جاتا ہے، مجھے یقین ہے کہ سفارتکار ہی اس کو بہتر طریقے سے آگاہ کر سکتے ہیں، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے جو ایکشن لیا گیا وہ سفارتی طور پر لیا گیا ہے۔ ہماری طرف سے بہت کلیئر طور پر بتایا گیا تھا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی۔
آرمی چیف کا دورہ چین بہت اہم تھا
انہوں نے کہا کہ چیف آف آرمی سٹاف کا چین کا دورہ بہت اہم تھا، جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے آرمی چیف تھے جو صدر شی جن پنگ سے ملے، پاکستان کے چین کے ساتھ سٹرٹیجک اور تعلقات انتہائی اہم ہیں، چین نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا، اس دورے کا مقصد دفاعی سمیت دیگر تعلقات کو مضبوط بنانا تھا۔ چین کے ساتھ تعلقات خطے میں امن کے لیے بہت اہم ہیں۔ چین نے پاکستان کی دفاعی قوت بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آرمی چیف کا دورہ اسی سلسلے کی اہم کڑی تھی۔
انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی سکیورٹی فوج کودی گئی ہے۔ سی پیک سکیورٹی سے متعلق کسی قسم کی کمی نہیں آئی، حکومتی سطح پر سی پیک پر کام ہو رہا ہے، اس کی سکیورٹی پر خصوصی طور پر کام کیا جا رہا ہے، اس پر کوئی کمی نہیں آنے دی، پاکستان اور چین کی گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ رابطوں میں پیشرفت ہو رہی ہے، سپہ سالار کے دورہ چین کے دوران متعدد میمورنڈم پر دستخط ہوئے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے ہمسایہ ملک کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔ ہم اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں۔ بھارت کا دفاعی بجٹ بڑھ رہا ہے، دشمن کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے، ہمارا ماضی بھی بتاتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ وہاں سے چیلنجز رہے ہیں۔ اس وقت ہندوستان کی 13 لاکھ فوج ہے جبکہ ہماری فوج ساڑھے پانچ لاکھ ہے، اس وقت 50 فیصد آرمی مشرقی بارڈر پر تعینات ہے جبکہ 40 فیصد فوج مغربی سرحد پر تعینات ہے، باقی بچ جانے والی فوج کنٹونمنٹ اور کبھی داخلی سلامتی پر اپنا کردار ادا کرتی ہے۔
مہنگائی کے تناسب سے دفاعی بجٹ کم ہوا
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ بجٹ میں ہمیشہ ڈیفنس بجٹ پر بحث شروع ہو جاتی ہے، بجٹ میں محدود وسائل کو مدنظر رکھا جاتا ہے، محدود وسائل کے اندر رہ کر تمام ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں، بھارت نے ہمیشہ دفاعی بجٹ کو بڑھایا۔ 2020ء سے پاکستانی افواج نے اپنے بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا، مہنگائی کے تناسب سے دفاعی بجٹ کم ہوا ہے، دفاعی بجٹ جی ڈی پی پرسنٹ ایج میں نیچے جا رہا ہے۔ ہم نے اپنی صلاحیتوں میں کمی نہیں آنے دی، اس وقت ہم نے ڈیفنس بجٹ 100 ارب روپے کم کیا ہے، آرمی چیف نے ہدایت دی ہے مشقوں کو بڑے پیمانوں کے بجائے چھوٹے پیمانے پر کر لیا جائے، چھوٹی مشقوں سے بچت ہو گی، ہم نے اپنی غیر ضروری نقل و حرکت کم کر دی گئی ہے، افواج میں یوٹیلٹی بلز، ڈیزل، پٹرول کی مد میں بچت کی جا رہی ہے۔ پچھلے سال کورونا کی مد میں جو رقم ملی اس میں سے 6 ارب واپس کیا تھا۔ عسکری سازو سامان میں بھی ہم نے ساڑھے تین ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروا دیئے ہیں۔ ہمارے رفاعی ادارے فوجی فاؤنڈیشن گزشتہ سال 150 ارب روپے ٹیکس جمع کروائے۔ آرمی ویلیفئر ٹرسٹ نے 2.2 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروائے ہیں۔
بھارت نے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈالنے کیلئے بہت لابنگ کی
انہوں نے مزید کہا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس چل رہا ہے، اس اجلاس کے بارے میں کوئی کمنٹس نہیں کروں گا، پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کے لیے بھارت کی طرف سے بہت لابنگ کی گئی تھی۔ بھارت چاہتا تھا کسی طریقے سے پاکستان کو بلیک لسٹ کر دیا جائے۔ آرمی چیف کی ہدایت پر 2019ء میں حکومت کی درخواست پر جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں ملٹری آپریشن ڈائریکٹوریٹ میں ڈی جی ایم اوکی سربراہی میں ایک سپیشل سیل قائم کیا گیا تھا۔ اس سیل میں تیس سے زائد محکموں، وزارتوں اور ایجنسیوں کے درمیان رابطے کا میکنزم بنایا۔ اور ہر پوائنٹ پر ایک ایکشن پلان بنایا۔ اس سے ان محکموں، وزارت اور ایجنسیوں سے عملدرآمد کروایا۔ اس سیل نے دن رات کام کیا۔ اس پر منی لانڈرنگ اور ٹرر فنانسنگ پر تمام اداروں نے کام کیا اور اس کے بعد قانون سازی کی گئی، فٹیف کی 27 میں سے 26 شرائط پر مکمل عملدرآمد کیا گیا۔
پرویز مشرف کی صحت بہت خراب، پاکستان واپس آ جانا چاہیے
سابق صدر سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی صحت بہت خراب ہے، اللہ تعالیٰ انہیں صحت دے، ایسی صورتحال میں پرویزمشرف کی فیملی سے رابطہ کیا گیا ہے، اس صورتحال میں ادارے اور اس کی لیڈرشپ کا موقف ہے مشرف کو واپس آجانا چاہیے۔ اسی مد میں میں مشرف کی فیملی سے رابطہ کیاگیا، مشرف کی واپسی کا فیصلہ ان کی فیملی اور ان کے ڈاکٹرز نے کرنا ہے کہ وہ ان کو ایسی کنڈیشن میں سفر کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں یا نہیں، اگر یہ دونوں چیزیں سامنے آ جاتی ہیں تو اس کے بعد ہی کوئی انتظامات کیے جا سکتے ہیں، انسٹیٹیوشن محسوس کرتاہے جنرل (ر) مشرف کو اگر ہم پاکستان لاسکیں کیوں کہ ان کی کنڈیشن ایسی ہے۔