لاہور:(روزنامہ دنیا) سلطان شمس الدین التمش ہندوستان کے عہد سلاطین کا ایک صاحب طمطراق بادشاہ تھا جس نے اپنے عہد میں ہندوستان کی سرزمین سے ناانصافی اور جہالت کی تاریکیوں کو دور کرنے کیلئے وہ کردار ادا کیا جو بعد میں کوئی بھی نہ کر سکا، اس ناول کی سب سے بڑی اور انوکھی بات یہ ہے کہ جس عہد پر اس ناول کی کہانی مشتمل ہے، وہ عہد ہندوستان میں، اولیاء اور صوفیائے کرام کے حوالے سے بے پناہ اہمیت رکھتا ہے۔
خاص طور پر سلسلہ چشتیہ کے آغاز کا دور یہی ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ اس دور میں حیات تھے اور سلطان، آپ کی ذات کی روشنی سے محروم نہیں تھا۔ سلطان شمس الدین کی زندگی کا ایک واقعہ تو آپ نے بھی سن رکھا ہوگا۔ بہت مشہور ہے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے وفات سے قبل وصیت فرمائی کہ اُن کا جنازہ وہ شخص پڑھائے جس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نماز عصر کی سنتیں بھی قضا نہ کی ہوں، اور کتابوں میں لکھا ہے کہ جب حضرت خواجہ کا جنازہ تیار تھا تو ایک بھی ایسا شخص نہ مل سکا جو اس شرط پر پورا اُترتا۔ تب سلطان شمس الدین التمش یہ کہتا ہوا آگے بڑھا کہ ’’آج حضرت خواجہؒ نے میرا بھانڈا پھوڑ دیا‘‘۔ اس طرح سلطان نے خود حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی نماز جنازہ پڑھائی۔مصنف ادریس آ زاد نے اسی بادشاہ کے عہد، کو میں نے اپنے ناول کیلئے چنا ہے۔
مصنف ادریس آزاد’’عرضِ حال‘‘ کے عنوان سے کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہندوستان کرۂ زمین کی سب سے قدیم آبادی ہے۔ ماہرین ارتقاء کی تحقیقات کے مطابق انسان نے آگہی کی آنکھ اسی سرزمین پر کھولی۔ بائبل اور احادیث صحیحہ سے بھی یہی ثابت ہے کہ آدم نے اسی خطے میں اپنے آپ کو پہچانا۔ ہندوستان کی سرزمین اقوام عالم کیلئے ایک جادوئی دھرتی کا درجہ رکھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ روز اول سے ہی روئے زمین کی تمام اقوام اس خطے کے ساتھ گہری دلچسپی کا اظہار کرتی ہیں۔ گزشتہ تواریخ میں جس قدر اقوام نے ہندوستان پر حملے کئے اور اپنی آئندہ رہائش کیلئے اس خطے کو چنا اس قدر دنیا کے کسی اور علاقے پر یلغاریں ہوئیں اور نہ کہیں کوئی بسا۔ دنیا کی باقی تمام اقوام ایک مخصوص شکل و صورت کی حامل ہیں۔ مثلاً چینی، جاپانی یا انگریز لیکن ہندوستانی کسی ایک پیکر میں نہیں ڈھلے۔ قدیم آریائوں سے لے کر انگریزوں تک برصغیر کے شہریوں میں ہر کسی کا ناک نقشہ دکھائی دیتا ہے۔
ادریس آزاد لکھتے ہیں کہ عرب بھی بر صغیر میں پدھارے۔ 712ء میں محمد بن قاسم نے دیبل کا ساحل فتح کرکے برصغیر میں قدم رکھا۔ فی الحقیقت یہ کسی عرب فوج کا تو پہلا داخلہ تھا لیکن عام عربوں کی آمدورفت اس سے بھی کہیں پہلے ہندوستان میں جاری تھی۔ مصنف اپنی تحقیق کے مطابق بتاتے ہیں کہ عرب خود ہندوستانیوں کی اولاد ہیں۔ بعض تحقیق نگاروں نے عربی اور ہندی کے قدیم الفاظ میں چند مماثلتیں دریافت کی ہیں جو فی الحقیقت اس بات کا ثبوت دکھائی دیتی ہیں کہ عرب غالباً ہندوستانیوں کی اولاد ہیں۔ انگنت الفاظ ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر کچھ کچھ یقین ہونے لگتا ہے کہ اہل عرب شاید اہل ہند کی ہی ایک ترقی یافتہ نسل ہیں۔ان شواہد کی روشنی میں عرب ہی وہ واحدحملہ آور ہیں جو ہندوستانیوں کی زبان میں ’’درانداز‘‘ نہیں تھے بلکہ ایک طرح سے وہ اپنے ہی بھائی بندوں کے پاس آئے تھے۔
البتہ قدیم آریائوں اور سکندراعظم سے لے کر برطانیہ کے انگریزوں تک تقریباً ہر قوم اہل ہند کی دولت لوٹنے کیلئے ہی ہندوستان میں داخل ہوئی۔ تاریخ شاہد ہے کہ محمد بن قاسم جب ہندوستان سے واپس لوٹا تو یہاں کے ہندوئوں نے اس شفیق اور مہربان سالار کی مورتیاں بنا کر اپنے گھروں اور مندروں میں رکھیں اور اُسے ایک دیوتا کی طرح پوجا۔
چنانچہ سچ یہی ہے کہ عربوں کی آمد کو ادوار سابق کی طرح لٹیروں کی آمد نہیں کہا جا سکتا، جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ اگر عرب ہندوستان کی سرزمین پر قدم نہ رکھتے تو اہل ہند میں موجود ذات پات اور اونچ نیچ کا قبیح تصور کبھی ختم نہ ہوتا۔ عربوں کے ہاتھوں میں قرآن تھا جو ہر قسم کی انسانی تفریق کے خلاف ایک بلند بانگ آواز ہے۔زیر تبصرہ ناول ’’سلطان شمس الدین التمش ‘‘میں بنیادی چیز یہی ہے۔ یعنی، چھوت چھات کی رذالتوں سے بالآخر ہندوستانیوں کی جان کیسے چھوٹی۔ یہ ناول سلطان شمس الدین التمش کے عہد کی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ جس کے افسانوی کردار تو فرضی ہیں لیکن حقیقی کردار بھی جو تاریخ کا حصہ ہیں، اپنی تمام تر خوبیوں اور خصلتوں کے ساتھ موجود ہیں۔
یاقوت حبشی اس ناول کا حقیقی کردار ہے، لیکن اس حبشی میں کمال کی کشش ہے، جس نے اس ناول کو اول تا آخر نہایت دلچسپ بنا دیا ہے۔اس ناول میں سلطانہ رضیہ محض ایک شہزادی اور سپاہیہ ہے، جو اپنے عظیم باپ’’سلطان شمس الدین التمش کی آنکھوں کا نور اور اسلامی عساکر کی جان ہے۔ آپ جوں جوں اس ناول کی کہانی کے ساتھ آگے بڑھتے جائیں گے، آپ شہزادی رضیہ کی شان اور حسن میں ایک نئی ترنگ دیکھتے جائیں گے۔ الغرض کہانی کے لحاظ سے یہ ناول تمام تر خوبیوں سے آراستہ ہے۔