اسلام آباد: (محمد عادل) حکومت نے قومی اسمبلی میں اپنی پوزیشن بہتر کرنے کیلئے سیاسی چال چلی تو عمران خان نے بھی مقابلے کیلئے خود ہی 9 حلقوں سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ان کا خیال ہے کہ وہ اپنے بیانیہ سے تمام مخالفین کو شکست دے سکتے ہیں۔ حالیہ ضمنی الیکشن کے نتائج نے ان کی ہمت بڑھائی ہے لیکن ان کا فیصلہ بڑی سیاسی غلطی بھی ہوسکتا ہے ۔25 ستمبر کو سیاسی میدان میں اترنے سے پہلے انہیں اور بھی کئی مرحلوں سے گزرنا ہے۔جن 9 حلقوں میں ضمنی الیکشن ہے اس میں چار کے پی اور دو پنجاب میں ہیں ،جہاں تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں جبکہ تین سندھ میں ہیں۔ 2018ء کے انتخابی نتائج کا جائزہ لیا جائے تو ان9 حلقوں سے تحریک انصاف جیتی تھی لیکن باقی اتحادی جماعتوں کے ووٹ زیادہ ہیں۔ این اے 22 سے علی محمد خان جیتے اور58ہزار 652 ووٹ لئے جبکہ ان کے مقابلے میں ایم ایم اے نے 56 ہزار 587، مسلم لیگ ن نے36 ہزار 804 ، اے این پی نے 27 ہزار جبکہ پیپلز پارٹی نے 13 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے۔
مجموعی صورتحال میںتحریک انصاف کے مقابلے میں اتحادی جماعتوں کے امیدواروں نے ایک لاکھ 34 ہزار ووٹ لئے جو تحریک انصاف کے امیدوار سے75 ہزار زیادہ ہیں۔ اسی طرح این اے 24 میں تحریک انصاف کے فضل محمد خان نے 83 ہزار سے زیادہ ووٹ لئے جبکہ اتحادیوں کے ایک لاکھ9 ہزار سے زیادہ ووٹ تھے۔صرف این اے 31 میں پی ٹی آئی کے ووٹوں کا مارجن اتحادیوں سے زیادہ ہے ۔این اے 45 میں 2018ء میں ایم ایم اے جیتی ،ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف نے سیٹ چھین لی لیکن ووٹوں کا تناسب تقریباً برابر ہے جبکہ پنجاب کے حلقوں این اے 108 اور این اے118 میں پی ٹی آئی اور ن لیگ کے درمیان ووٹوں کا فرق زیادہ نہیں تھا۔ مجموعی ووٹ تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کے زیادہ ہیں لیکن پنجاب اور سندھ کے حلقوں میں ٹی ایل پی کے ووٹ اب بھی فیصلہ کن ہونگے۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے کے بعد ملکی سیاست میں پھر بھونچال آیا ہوا ہے ۔ایک دوسرے پر الزامات لگ رہے ہیں ،تاحیات نااہلی کی باتیں ہورہی ہیں ،حتمی کارروائی سے پہلے ہی سیاسی مخالفین فیصلے کو اپنے اپنے معنی پہنارہے ہیں ۔وفاقی حکومت نے عمران خان اور پارٹی کیخلاف کارروائی کا فیصلہ تو کرلیا ہے لیکن ابھی قانونی معاملات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ عمران خان کو بھی صورتحال کا اندازہ ہے اس لئے سیاسی صف بندی میں مصروف ہیں ۔ ملکی سیاست میں ایسا پہلی بار نہیں ہورہا ،سیاست مائنس اور پلس کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ سیاستدانوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا، ذوالفقار بھٹو کو مائنس کیا گیا لیکن تاریخ میں زندہ ہیں ابھی بھی سیاست ان کے گردہی گھوم رہی ہے ۔بے نظیربھٹو چلی گئیں نوازشریف نااہل کردیئے گئے، لیکن عوام سے مائنس نہیں ہوسکے ۔ عمران خان نے نوازشریف کی نااہلی پر شادیانے بجائے لیکن اب وہ خود اسی طرح کے حالات اور صورتحال سے دوچار ہیں۔ نااہلی کی تلوار سرپر لٹک رہی ہے۔
سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، نئی غلطی کی بجائے پرانی غلطیوں سے سیکھنا چاہئے بلکہ اپنی اصلاح کرنی چاہے ۔جو کچھ نوازشریف کے ساتھ ہوا وہ اب عمران خان کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی ہے کہ ہم اب بھی خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط سمجھتے ہیں۔اگر عمران خان کا خیال ہے کہ انہیں سیاست سے آئوٹ کرنے کی سازش ہورہی ہے تو انہیں ماضی میں نوازشریف کے خلاف ہونے والی سازش کی بھی مذمت کرنی چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ جو ماضی میں ہوا وہ ٹھیک اور جو اب ہورہا ہے وہ غلط ہے۔پہلے اگر غلط تھا تو اب بھی غلط ہے اور پہلے ٹھیک تھا تو اب ناجائز کیسے ہوسکتا ہے ؟
بدقسمتی سے سیاسی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمارے ادارے ہمیشہ متنازع رہے پہلے عدلیہ پر سوال اٹھے اب الیکشن کمیشن پر الزامات لگ رہے ہیں۔ آئندہ قومی انتخابات سے نوازشریف اور عمران خان سمیت تمام سیاسی قوتوں کو کھیلنے کے لئے یکساں میدان ملنا چاہئے لیکن اس سے پہلے تمام سیاسی قوتوں کو بیٹھ کر فیصلہ کرنا ہوگا ،ماضی میں اپنے روئیے پر معذرت کرنی ہوگی اور مستقبل کے لئے مشترکہ حکمت عملی بنانی ہوگی تاکہ انتخابات متنازع نہ ہوں۔یہ میوزیکل چیئر اب بند ہونی چاہئے ۔سیاستدانوں کو احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ملک بدترین سیاسی افراتفری کا شکار ہے ،عمران خان کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کو پذیرائی ملی ،سیاسی مقبولیت بڑھی جس سے تحریک انصاف میں یہ سوچ پروان چڑھی کہ اب کوئی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا ،شہبازگل کے غیرذمہ دارانہ بیان کی وجہ سے حالات تحریک انصاف کے لئے تنگ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اپنے مفاد اور مقاصد کے حصول کیلئے اسٹیبلشمنٹ میں تقسیم کی کوشش کرنا کسی کے مفاد میں نہیں،عمران خان کو قومی لیڈر کے طور پر سوچنا چاہئے انہیں تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے یہی ملک کے مفاد میں ہے۔