لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) اس عالم رنگ و بو میں کسی بھی خطے پر جب کفر و شرک زندیق و الحاد کی ظلمت مسلط ہو جاتی ہے تو رب کریم اپنی مخلوق کی اصلاح و فلاح کیلئے کسی ایسی صالح و برگزیدہ ہستی کے وجود مسعود کا ظہور فرما دیتا ہے جو ملک و ملت پر چھائے ہوئے کفر و شرک کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو انوار توحید سے منور کر دیتا ہے۔ جس سے رشد و ہدایت کی شمع فروزاں ہو جاتی ہے۔
آج سے سیکڑوں سال قبل جب پورے ہندوستان پر جہالت و ضلالت کے دبیز پردے پڑے ہوئے تھے اور خطے کا گوشہ گوشہ بدھ مت کے پرستاروں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس وقت بحکم خدائے لم یزل عروس البلاد سرزمین لاہور کی قسمت جاگی اور یہاں کی سرزمین کو اللہ نے عابد، زاہد، ساجد، عالم، فاضل، محدث، مفسر، مفکر، مخدوم امم، سلطان الاصفیاء تاجدار معرفت وحقیقت، منبع جودوسخا حضرت سیدعلی ہجویریؒ سے شرف یاب فرمایا۔ آج ایک ہزار سال گزرنے کے بعد بھی خطہ لاہور اللہ کے اس کامل ولی کی عظمتوں کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سید علی ہجویریؒ کا فیض عام پوری دنیا میں ہے اور بے شمار لوگوں نے آپؒ سے فیض حاصل کیاہے۔
یقیناً برصغیر میں دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا مقدس سہرا ان صوفیائے کاملین کے سر ہے جنہوں نے مصائب و آلام کو نہایت صبر سے برداشت کیا اور اسلام کے پیغام کو چپہ چپہ، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ میں عام کیا۔ بے شمار لوگوں کو کلمہ طیبہ پڑھا کر انہیں صاحب ایمان کیا۔ ان مقدس صوفیائے کرام کی صف اول میں کامل بزرگ حضرت سید علی ہجویریؒ کی ذات سب سے نمایاں ہے۔ آپؒ نیکی اور زہد وتقویٰ میں یکتائے زمانہ ہیں۔ آپؒ کا اسم گرامی صوفیاء کی صف میں سورج کی طرح چمکتا دمکتا رہے گا۔ آپؒ کی عظیم ہستی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپؒ اللہ کے مقبول بندے ہیں۔ جنہوں نے اپنے علم و عمل سے تاریخ اسلام میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اگر برصغیر میں آپؒ کو اسلام کا پہلا داعی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
آپؒ کا اسم گرامی سید علی ہجویری، کنیت ابوالحسن ہے۔ آپؒ کا شمار ان بزرگان دین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی عملی زندگی اور افعال و کردار سے انسانیت کی بجھی ہوئی شمع کو پھر سے جگمگایا اور پانچویں صدی ہجری میں برصغیر پاک و ہند میں دین اسلام کی وہ شمع روشن فرمائی جس کی ضیاء باریوں سے زنگ آلود دلوں کو نورایمانی اور عشق رسول ﷺ سے منور کر دیا۔ آپؒ اپنے طریق میں یگانہ تھے۔ علم اصول میں امام اور اہل تصوف میں بہت بڑا درجہ رکھتے تھے۔ غریب نواز خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے بھی حضرت علی ہجویریؒؒ کی آخری آرام گاہ کے پاس بیٹھ کر چلہ کیا اور انوار الٰہیہ کی بہاریں لوٹیں۔
حضرت علی ہجویریؒ کی ولادت 400 ھ میں غزنی کے قریب ایک گائوں میں ہوئی۔ ہجویر، جلاب غزنی کے دو علاقے ہیں، اس لئے آپؒ کو جلابی اور ہجویری
کہتے ہیں۔ آپؒ کے والد محترم کا اسم گرامی عثمان بن علی بن عبدالرحمان ہے۔ آپؒ کا پورا گھرانہ زہد و تقویٰ میں مشہور ہے۔ بچپن ہی سے اللہ نے آپؒ کو اپنے خصوصی فضل و کرم انعامات اکرام سے نوازا۔ عالم شباب میں ہی آپؒ تمام علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کر چکے تھے۔ ان علوم کیلئے آپؒ نے اپنے وقت کے مایہ ناز اور بے بدل علمائے کرام اور مشائخ عظام سے اکتساب فیض لیا۔ خاص کر اپنے شیخ طریقت حضرت ابو الفضل محمد بن حسن ؒجیسے جلیل القدر بزرگ سے استفادہ کیا اور ان ہی کے دست حق پر بیعت کا شر ف اعظم حاصل کیا۔ آپؒ نے تصوف و معرفت کے تمام اسرار و رموز ان کی صحبت میںرہ کر حاصل کئے اور تصوف و طریقت کی تمام منازل بھی ان ہی کی صحبت میں رہ کر طے کیں۔ آپؒ نے اپنی زندگی کا کافی حصہ روحانی تجربات اور تزکیہ نفس کی خاطر سیر و سیاحت میں گزارا۔ دوران سیاحت آپؒ بغداد شریف، طبرستان، خراسان، ماورا، النہر، شام، ترکی اور عراق تشریف لے گئے۔ وہاں مختلف اولیاء اور صوفیائے کرام سے علم و روحانی فیوض و برکات حاصل کئے۔ آپؒ اپنے مرشد حضرت ابوالفضل محمد بن حسنؒ کے حکم پر تبلیغ اسلام تصوف و طریقت اور لوگوں کی رشد وہدایت کیلئے لاہور آئے اور دریائے راوی کے کنارے ٹھہرے۔ وہاں رات قیام کیا اور اگلے روز شہر میں داخل ہو گئے۔آپ نے جس جگہ اقامت پذیر ہوئے، وہیں اللہ کا گھر مسجد کی تعمیر کرائی اور خلق خدا کو فیض سے نوازا۔آپؒ نے بے شمار کافروں کو دین اسلام میں داخل کیا اور ان کے قلوب کو عشق رسولﷺ سے معطر فرما یا۔ آپؒ کی نورانی صحبت کا یہ اثر ہو اکہ بے شمار لوگ برکت سے مرتبہ ولایت پر فائز ہوئے۔
لاہور میں اپنی پر خلوص کوششوں سے آپؒ نے تعلیمات رسول ﷺ کو عام کیا اور بھٹکے ہوئے انسانوں کے دلوں کو عشق مصطفیﷺ کی شمع سے منور فرمایا اور ان میں علوم دین حاصل کرنے کا شوق پیدا کیا ۔ آپؒ اکثر لاہور میں قیام کے دوران اپنا وقت تصنیف اور تالیف میں گزارتے مگر ایک لمحہ کیلئے بھی اشاعت دین سے غافل نہ ہوئے۔ آپؒ کی کوششوں سے ہزاروں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ جن میں لاہور کا ایک ہندوراجہ بھی شامل تھا۔
تصوف اور علوم دینیہ میں آپؒ کا درجہ بہت بلند ہے۔ حضرت خواجہ معینؒ الدین اجمیری اور حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ جیسے اولیائے کرام نے آپؒ سے فیض لیا اور حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کا فیض لینے کے بعد یہ شعر آفاق میں مشہور زبان زد عام ہے کہ
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
حضرت علی ہجویریؒ کی مشہور کتاب کشف المحجوب میں تصوف کے اسرار و رموز پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ہندوستان میں اسلامی تصوف پر یہ پہلی کتاب ہے۔ سرزمین لاہور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپؒ نے اپنی یہ معرکہ آرا کتاب یہیں تصنیف فرمائی۔ یہ آپؒ کی وہ ایمان افروز، باطل شکن، روح پرور، صراط مستقیم دکھانے والی کتاب ہے جو دنیائے تصوف ومعرفت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس کے مطالعہ سے کئی بھٹکی ہوئی روحیں راہ حقیقت پر گامزن ہو چکی ہیں۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ فرماتے ہیں کہ جس شخص کا کوئی مرشد نہ ہو اس کو کشف المحجوب کے مطالعہ کی برکت سے مل جائے گا۔ ہر دور کے محققین، مورخین، مصنفین اور صوفیاء اصفیاء بہ صمیم قلب کشف المحجوب کی فضیلت و اکملیت کے معترف ہیں۔ حضرت علی ہجویریؒ خود اس عدیم النظیر کتاب کے دیباچہ میں فرماتے ہیں کہ’’ میں نے یہ کتاب ایسے افراد کیلئے تحریر کی ہے جو حجاب غنیی میں گرفتار ہیں یعنی جن افراد کے قلوب میں حقائق و معارف کی تنویر موجود تو ہو لیکن وہ نور حق سے پرنور نہیں‘‘۔ فارسی کی تمام کتابوں میں جو شہرت اس کتاب کو ملی ہے وہ کسی کے حصہ میں نہیں آئی۔ یہ فارسی زبان میں لکھی جانے والی سب سے پہلی فقید المثال دستاویز ہے اور تصوف میں ایک کامل رہنما ہے۔
حضرت علی ہجویریؒ نے اپنے دلائل سے یہ ثابت کیا کہ جس شخص کو خدا کا علم یعنی علم حقیقت نہیں اس کا دل جہالت کے سبب مردہ ہے اور جس شخص کو اس کا عنایت کیا ہوا یعنی علم شریعت نہیں اس کا دل نادانی میں مبتلا ہے۔ آپؒ نے دونوں علموں کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے۔ جس طرح ظاہری علوم کیلئے اساتذہ کرام کی شاگردی کرنا لازم ہے اسی طرح باطنی علوم کیلئے مشائخ عظام کی بیعت اور مرید ہونا بھی ضروری ہے۔ بزرگان دین نے دلائل شریعہ سے ثابت کیا کہ کوئی شخص اس وقت تک کمال کو نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ کامل کے ہاتھ پر بیعت نہ ہوا ہو۔
حضرت علی ہجویریؒ کا شمار ان اکابر اولیاء کرام میں ہوتا ہے جن کی پاکیزہ جدوجہد سے پنجاب کے خطے لاہور میں علم و عرفان کے چشمے پھوٹے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سیدنا حضرت علی ہجویریؒ ایک عارف کامل، صوفی باصفا، صاحب فضل و کمال، عالم بے مثال، داعی حق اور پروانہ شمع رسالت تھے۔ آپؒ نے تمام عمر اشاعت و تبلیغ اسلام میں بسر فرما دی۔ آپؒ کا علمی و روحانی فیض ہمیشہ جاری رہا۔ جو شخص بھی آپؒ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، علم وعرفان ور روحانی دولت سے مالا مال ہوا۔
ہر سال آپؒ کے عرس کے موقع پر ہزاروں من دودھ کی سبیل لگائی جاتی ہے۔ جب حضرت علی ہجویریؒ تبلیغ اسلام کی خاطر غزنی سے لاہور تشریف لائے، جس جگہ پانی کا چشمہ ہے وہاں درخت کے سایہ میں آپؒ نے قیام فرمایا۔ ایک روایت کے مطابق ان دنوں شہر لاہور اور گردونواح کے لوگ اپنے مویشیوں کا ایک وقت کا دودھ لاہور کے ہندو جوگی رائے (شہر کوتوال) کو دیا کرتے تھے۔ آپؒ کے قیام کے تیسرے دن ایک بڑھیا دودھ اٹھائے جوگی کو دینے جا رہی تھی تو آپؒ نے بلا کر پوچھا تو اس بڑھیا نے کہا کہ میں یہ دودھ لاہور کے کوتوال رائے راجو کو دینے جا رہی ہوں، اگر میں نے دودھ نہ دیا تو میرے جانور دودھ کے بجائے خون دینا شروع کر دیں گے۔ آپؒ نے فرمایا یہ دودھ تم مجھے دے دو تمہارے جانور خون نہیں دیں گے۔ آپؒ کی بات پر وہ بڑھیا اس قدر متاثر ہوئی کہ وہ دودھ آپ ؒ کو دے کر چلی گئی۔ جب اس نے گھر پہنچ کر شام کو دودھ دوہنا شروع کیا تو خون آنے کے بجائے دودھ کی مقدار میں بھی اضافہ ہو گیا۔ اس بات کی خبر بڑھیا نے دوسرے لوگوں تک بھی پہنچائی تو انہوں نے بھی آپؒ کی خدمت میں دودھ دینا شروع کر دیا۔ جب کوتوال شہر رائے راجو کو پتہ چلا تو اس نے اپنی شعبدہ بازیوں سے آپؒ کوبھگانے کی کوشش کی مگر آپؒ نے اپنی کرامات اور نگاہ کیمیاء اثر سے اسے زیر کر دیا اور اسے بھی کلمہ طیبہ پڑھا کر مسلمان کر دیااور وہ لقب شیخ ہندی سے مشہور ہوئے۔ آپؒ نے دودھ کی پہلی نذر قبول فرمائی چنانچہ پنجاب بھر کی گجر برادری اور شیر فروش اس روایت کو صدیوں سے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ آپؒ کا وصال مبارک 465ھ کو لاہور میں ہوا۔ آپؒ کے عرس مبارک پر سہ روزہ عظیم الشان تقریبات ہوتی ہیں، جس میں دنیا بھر سے جید علماء و مشائخ طریقت حاضری کو بہت بڑا اعزاز سمجھتے ہیں۔
اللہ کریم ان صوفیائے کرام کے مقدس آستانوں کو جہاں آج بھی بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ صراط مستقیم ملتی ہے، جہاں آج صدیاں بیت جانے کے بعد بھی ہر لمحہ ذکر خدا، تلاوت کلام مجید درود پاک کی کثرت ہوتی ہے اور جہاں آج بھی بے سکون دلوں کو سکون قلب میسر آتا ہے۔
صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی عالم دین ہیں اور 25 سال سے مختلف جرائد کیلئے اسلامی موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔