نارووال سپورٹس کمپلیکس ریفرنس خارج، عدالت کا احسن اقبال کو بری کرنے کا حکم

Published On 21 September,2022 03:34 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) ہائی کورٹ نے ناروال سپورٹس سٹی کمپلیکس ریفرنس کو خارج کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق احسن اقبال کی بریت کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سماعت کی، جس کے آغاز پر عدالت نے نیب تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ اس کیس میں کرپشن کہاں ہوئی؟، آپ کو کیس کب ملا ہے ؟

عدالتی استفسار پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ 2018ء میں مجھے یہ کیس ملا تھا، 2019ء میں گرفتار کیا گیا، چیف جسٹس نے نیب کی جانب سے پراسیکیوٹر نہ ہونے کی وجہ سے کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ ایک نامعلوم اخبار سے چیئرمین نے اٹھا کر پروسیڈنگ شروع کردیں، عدالت نے نیب حکام سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو پتا ہے سی ڈی ڈبلیو پی ہوتی کیا ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے بغیر معلوم کیے کہ سی ڈی ڈبلیو پی ہوتی کیا ہے ریفرنس دائر کردیا ہے، جس سیکرٹری کو آپ نے وعدہ معاف گواہ بنایا، اس کا بیان دیکھا ہے، آپ نے پبلک کا پراجیکٹ روک دیا، اس کے اخراجات میں اضافے کا سبب کون بنا، جس پر نیب تفتیشی افسر نے عدالت کو جواب دیا کہ ہم نے پراجیکٹ کو نہیں روکا تھا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں اس کیس میں کرپشن کیا ہے؟، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل آج دستیاب نہیں ہیں، وہ دلائل دیں گے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ آپ کو التوا نہیں ملے گا، ہم اس کیس کو ترمیمی آرڈیننس کے تحت دیکھ رہے ہیں، ترمیمی آرڈیننس کا تو اس میں تعلق ہی نہیں۔آپ کا کام کرپشن کو دیکھنا تھا آپ کرپشن کو چھوڑ کر اور کاموں میں لگ گئے ۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ یہ منصوبہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی معاملہ تھا۔ وہاں سے یہ منصوبہ بین الصوبائی رابطہ وزارت کو دے دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا احسن اقبال بین الصوبائی رابطہ کے وزیر تھے؟جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ احسن اقبال وزیر منصوبہ بندی تھے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا تو پھر احسن اقبال کے پاس کون سا اختیار تھا جس کا غلط استعمال ہوا؟۔

چیف جسٹس نے نیب تفتیشی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کا کام نہیں کہ کس منصوبے سے متعلق پالیسی کیا ہو۔ نارووال چھوٹا شہر ہے یا بڑا، وہاں کتنا منصوبہ بننا یہ دیکھنا آپ کا کام نہیں۔ آپ کو کوئی اتا پتا ہی نہیں حکومت چلتی کیسے ہے۔ اس میں کرپشن کا کوئی ایک الزام بتا دیں۔ اگر آپ نقصان کا کہتے ہیں تو آپ نے یہ پراجیکٹ روکا اور نقصان پہنچایا۔ نقصان کا ہی کیس تھا تو پھر اپنے خلاف کیس کرتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اب نیب دیکھے گی کہ کونسی گورنمنٹ کیا کر رہی ہے ۔ کون سا اخبار تھا، اس میں لکھا ہوا کیا ہے جس پر آپ نے کیس شروع کیا تھا؟۔ کیا چیئرمین نیب نے یہ حقائق چیک کیے تھے کہ یہ درست ہیں یا نہیں۔ ایک پبلک ویلفیئر پراجیکٹ سے متعلقہ کرپشن کا کیس اس بنیاد پر شروع کیا ؟ نیب تفتیشی افسر کی جانب سے مہلت طلب کرنے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو بہت وقت دے چکے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت آج بھی کئی منصوبے صوبوں میں لگا رہی ہے، کیا اب نیب انہیں بھی پکڑ لے گا ؟ ایک میٹرو واچ کی خبر پر آپ نے پراجیکٹ ہی رکوا دیا؟

عدالت نے نیب تفتیشی افسر سے استفسارکیا کہ آپ نے احسن اقبال کو کیوں گرفتار کیا ہے ؟ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے کہا کہ اجازت دیں، جو ابھی قانون ہے، اس کے مطابق ہم کیس کو دیکھیں، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ ابھی کے قانون کو چھوڑ دیں ہم نے پہلے والے قانون کی بھی تشریح کی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک قابل افسر احد چیمہ بری ہو گیا، آپ نے 3 سال اس کو جیل میں ڈالے رکھا ۔ یہ جو اتنی بدنامی آپ کراتے ہیں، اس کا ذمے دار کون ہے؟۔نیب نے خود لکھا پہلا نقصان منصوبے کو التوا میں رکھنے سے ہوا۔ آپ اُن کو پکڑتے جنہوں نے 2009 تک منصوبے کو روکا ۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ تفتیشی صاحب آپ کو بہت زیادہ تربیت کی ضرور ت ہے۔ آپ لوگوں کی ساکھ کے ساتھ اس طرح کھیلتے ہیں۔ آپ سے کوئی 15 بار پوچھ چکے ہیں کرپشن کا بتائیں۔ اسی لیے عدالت نے لکھا ہے کہ بہت سارے فیصلے غلط ہو سکتے ہیں لیکن کرپشن نہیں ہو سکتا۔ آپ غلط کیسز بناتے ہیں تو پھر جب یہ غلط کیسز ڈیکلیئر ہوتے ہیں تو اس کا دفاع بھی نہیں کر سکتے ۔

بعدازاں عدالت نے نارووال سپورٹس سٹی کمپلیکس کیس میں احسن اقبال کو بری کرنے کا حکم دے دیا، کیس کی سماعت کے بعد چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے احکامات جاری کیے۔

نیب نے تسلیم کیا ریفرنس میں کرپشن کا کوئی الزام نہیں، احسن اقبال

بعدازاں احسن اقبال نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران نیازی اور جسٹس جاوید اقبال نے مسلم لیگ(ن) کے خلاف کردار کشی کی جو مہم چلائی تھی، یہ کیس اسی سلسلے میں بنایا گیا تھا اور جس ریفرنس کی پاداش میں مجھے بھی اڈیالہ جیل میں سزائے موت کے قیدیوں کے سیل میں وقت گزارنا پڑا، آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچ نے تقریباً ایک گھنٹے لگاتار چیف جسٹس نے نیب سے درجنوں مرتبہ سوال کیا کہ ہمیں بتائیں کہ اس ریفرنس میں احسن اقبال کے خلاف کرپشن کا کیا ثبوت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی چیز میں کرپشن کا شائبہ بھی ہے تو وہ بھی بتائیں اور نیب یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوا کہ اس ریفرنس میں کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج میں پاکستانی قوم کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ شخص جو پچھلے کئی سالوں سے اس قوم میں جھوٹ بول بول کر چور ڈاکو کی فلم چلا رہا ہے اور اس نے مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے جنہیں اس نے قوم کو گمراہ کرنے کے لیے جواز بنایا۔

مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ میں عمران خان کو کہنا چاہتا ہوں کہ آ کر دیکھ لو کہ تمہارے جھوٹے الزاموں کی کیا حقیقت ہے، تم نے ہم پر جو بہتان لگائے، آج یہ اسی کا خمیازہ ہے کہ تم سڑکوں پر ذلیل و خوار ہوتے پھر رہے ہو، آج اسی کا نتیجہ ہے کہ تم ذہنی توازن کھو بیٹھے ہو۔

انہوں نے اعلان کیا کہ ہم نارووال اسپورٹس سٹی کو مکمل بھی کریں گے، اس کو پاکستان میں نوجوانوں کے لیے کھیلوں کی بہترین اور جدید ترین سہولت بنائیں گے اور اسے مکمل کرنے میں جو اضافی اخراجات لگیں گے، اس کی ریکوری عمران نیازی اور نیب سے کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے جھوٹ کو سچ نہیں بنا سکا، منصوبے کا نقصان کیا، ہماری کردار کشی کی، ہمارے اہلخانہ اور دوستوں کو اذیت سے گزارا لیکن میں نارووال اور اپنے حلقوں کے عوام کا شکرگزار جنہوں نے اس کردار کشی کو مسترد کیا اور پہلے سے زیادہ یکجہتی کے ساتھ میرے ساتھ کھڑے رہے۔

احسن اقبال گرفتاری و نیب ریفرنس

خیال رہے کہ نارووال اسپورٹس سٹی اسکینڈل میں نیب نے 23 دسمبر 2019 کو احسن اقبال کو گرفتار کیا گیا تھا، وہ 2 ماہ سے زائد عرصے حراست میں رہے تھے اور پھر رواں سال اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں 25 فروری کو ضمانت دی تھی۔

بعد ازاں 9 ماہ بعد نومبر کے مہینے میں نیب نے نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس میں احسن اقبال اور دیگر کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا۔

نیب ریفرنس کے مطابق احسن اقبال اور دیگر نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا، ‘غیر قانونی طور پر منصوبے کے دائرہ کار کو 3 کروڑ 47 لاکھ 50 ہزار سے 3 ارب روپے تک بڑھا دیا’، مزید یہ کہ منصوبے کا ابتدائی خیال 1999 میں احسن اقبال کی ہدایت پر ‘بغیر کسی فزبلٹی اسٹڈی’ کے پیش کیا گیا تھا۔

ریفرنس کے مطابق 1999 میں جب سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) کی سربراہی احسن اقبال کررہے تھے تو 3 کروڑ 47 لاکھ 50 ہزار روپے کی لاگت پر نارووال منصوبے کی ابتدائی منطوری دی گئی تھی، اسی سال ان کی پاکستان اسپورٹس بورڈ (پی ایس بی) اور نیشنل انجینیئرنگ سروس آف پاکستان کو دی جانے والی ‘غیر قانونی’ ہدایت پر منصوبے کی لاگت کو 9 کروڑ 75 لاکھ 20 ہزار روپے تک بڑھ گئی تھی۔

احسن اقبال نے خود منصوبے کے لیے زمین کا انتخاب کیا تھا اور مخصوص خصرہ (پلاٹ) نمبرز کو پی ایس بی کے حوالے کیا تاکہ وہ اس کا انتخاب کرے، 1999 میں پاکستان اسپورٹس بورڈ نے وزارت ترقی و منصوبہ بندی کی ہدایت پر اس منصوبے کو اس بنیاد پر ملتوی کردیا تھا کہ اس منصوبے میں معاشی ضرورت کے حوالے سے وہ وزن نہیں تھا۔

بعد ازاں 2009 میں یہ منصوبہ دوبارہ شروع کیا گیا تھا اور تب اس کی لاگت 73 کروڑ 20 لاکھ روپے منظور کی گئی تاہم 18 ویں ترمیم کے بعد 2011 میں منصوبے کو حکومت پنجاب کے حوالے کردیا گیا تھا۔

نیب کے مطابق جب احسن اقبال نے 2013 میں وزیر ترقی و منصوبہ بندی کا چارج سنبھالا تو انہوں نے غیرقانونی طور پر اپنی وزارت کے حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ این ایس سی منصوبے کو پی ایس ڈی پی 14-2013 میں شامل کریں، یہ منصوبہ پی ایس ڈی پی 14-2013 کے مسودے میں شامل نہیں تھا کیونکہ یہ ایک منحرف منصوبہ تھا اور حکومت پنجاب کے سالانہ ترقیاتی پروگرام 14-2013 میں بھی اسے ظاہر کیا گیا تھا۔

رواں سال اپریل میں نیب ریفرنس کالعدم قرار دینے کی درخواست مسترد ہونے کے فیصلے کے بعد احسن اقبال نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا تھا۔
 

 

 

Advertisement