لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ادارے کے سربراہ بند کمرے میں فیصلہ کرتے ہیں، وہاں پر ان (اسٹیبلشمنٹ) کی جانب سے چیزوں کا جائزہ لیا جاتا ہے جو کہ اکثر اوقات ٹھیک نہیں ہوتا، ان چیزوں کے نتائج پورے ملک کو بھگتنا پڑتے ہیں، ادارے کے جائزہ کا نتیجہ 10 اپریل کو دیکھنے کو ملا جب ہزاروں لوگ میری حکومت ختم ہونے کے بعد سڑکوں پر نکل آئے۔ آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ جیتے گا، قوم امیدواروں کو نہیں تحریک انصاف کو جانتی ہے۔
یوٹیوب چینل کو انٹرویو کے دوران سابق وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں ایک مافیا بیٹھا ہے، جو سسٹم میں موجود ہے ملک میں تبدیلی نہیں آنے دیتا، ریگولیٹرز بھی ہر معاملات پر کمپرومائز کرتی ہیں۔یہ ادارے کام اس لیے انہیں کرتے کہ ان پر مافیا کا بہت دباؤ ہے۔مسابقتی کمیشن بھی کام نہیں کر رہی، میری حکومت میں بہت بحران تھے، ریلوے، پی آئی اے سمیت ہر ادارہ کرپٹ تھا، میں نے اپنی حکومت میں بہت مشکل دور کا سامنا کیا، اس دور نے مجھے بہت مضبوط کیا۔
پی ٹی آئی چیئر مین نے مزید کہا کہ ملک میں مافیا آٹومائزیشن نہیں آنے دیتے، ٹیکنالوجی ملک کے لیے بہت ضروری ہے، اسے بھی نہیں آنے دیا جا رہا، ایف بی آر میں پوری کوشش کی آٹومیٹ لایا جائے لیکن اسے بھی ناکام بنا دیا گیا۔ ادارے کے اندر سے بہت دباؤ آیا، جانتا ہوں ادارے کے اندر سے لوگ پیسے بنا رہے تھے، میری حکومت کے تین سال مشکل سے گزر گئے ،ا سی دوران چوتھے سال ملک میں بہت تیزی سے ترقی کر رہا تھا، ایکسپورٹ، انڈسٹری سمیت ہر چیز بڑھ رہی تھی، ملک میں آدھا وقت فوج اقتدار میں رہی، سویلین حکومت چاہتی تھی کہ فوج کو کنٹرول میں رکھا جائے۔ فوج کے احتساب کا زبردست نظام ہے، باقی اداروں میں ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاک فوج ایک بڑا زبردست ادارہ ہے جو کہ فنکشنل ہے، کورونا وائرس کی بڑی وباء کے دوران ہمیں بہت زیادہ فائدہ ہوا، پولیو، ٹڈی دل، سرحدوں کے معاملات پر بہت فائدہ ہوا۔ اس کی وجہ سے ادارے کے سربراہ نے جو ایک بار کہہ دیا تو سب اس پر عمل کرتے ہیں۔ بیورو کریسی میں ایسا نہیں ہوتا۔ منفی پہلو ادارے میں یہ ہے کہ اگر سربراہ فیصلہ غلط کر لے تو ادارہ اس پر سوال نہیں کرے گا، اس لیے سربراہ سپر بادشاہ بن جاتا ہے۔ سربراہ کے غلط فیصلے سے وہ نقصان ہوتا ہے جو ملک کو گزشتہ 8 ماہ کے دوران ہوا ہے۔میری حکومت میں معیشت بہترین چل رہی تھی، اب دیکھیں ملک ڈیفالٹ کی طرف بڑھ رہا ہے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ پاک فوج کا ادارہ جیسے فیصلہ کرتا ہے، ادارہ جب فیصلہ سیاست میں آ کر کرتا ہے، اس میں کوئی صلاحیت نہیں رہ جاتی، سیاسی فیصلے کرنے کے لیے سیاست کی سمجھ ہونی چاہیے، مجھے جنرل باجوہ نے متعدد بار کہا کہ عثمان بزدار کو وزارتِ اعلیٰ سے ہٹایا جائے، اس سے آپ (عمران خان) کی بہت بدنامی ہو گی، میں نے جواب دیتے ہوئے انہیں بتایا تھا میں 22 سال سے سیاسی جدوجہد کے بعد اقتدار میں آیا ہوں، جانتا تھا میری بہتری کس میں ہے، آپ (جنرل باجوہ) کو کیسے پتہ ہے، یہ تو ایسے ہے کہ میں پاک فوج کو ہدایت دینا شروع کر دوں کہ ایسا کریں۔ ایک شخص جو پارٹی کا سربراہ ہے، اسے پتہ ہے کیا غلط ہے کیا نہیں، غیر سیاسی شخص کو نہیں پتہ ہوتا اس (عثمان بزدار) میں کیا صلاحیت ہے۔ ادارے کے سربراہ بند کمرے میں فیصلہ کرتے ہیں، وہاں پر ان (پاک فوج) سے تجزیہ غلط ہوتا ہے، جس کا بعد میں رزلٹ پورے ملک کو اٹھانا پڑتا ہے، ادارے کے تجزیہ کا رزلٹ 10 اپریل کو دیکھنے کو ملا جب ہزاروں لوگ میری حکومت ختم ہونے کے بعد سڑکوں پر نکل آئے۔ پھر ایک کامن سینس ہے پالیسی کو بدلا جائے۔ میں بتانا چاہتا ہوں میں عقل کل نہیں ہوں، نپولین اور ہٹلر نے اپنی بہترین فوج تباہ کر لی، اس وقت عقل کہہ رہی تھی کہ سردی سے لڑنے کے بجائے واپس آیا جائے تو اس وقت واپسی کا فیصلہ نہیں ہوا۔ تو ہمارے اداروں کو غلطی کا اندازہ ہوا تو یہ کیوں واپس نہیں آئے۔ میں سمجھتا ہوں یہاں پر غلطی نہیں ہوئی بلکہ یہاں بدنیتی تھی۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ ملکی معاشی صورتحال پر اتنا کہنا چاہوں گا کہ ہمیں ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانا ہے، کیونکہ اس بہت زیادہ نقصانات ہیں، میرے نزدیک ہم ڈیفالٹ ہو چکے ہیں، جب قوم ڈیفالٹ ڈکلیئر ہو جائے تو اس بہت زیادہ نقصانات ہیں، مجھے خدشہ ہے دنیا ہم سے اپنی مرضی کے فیصلے کروائے گی، کیونکہ سپر پاورز پاکستان کو مضبوط ملک نہیں دیکھنا چاہتیں، ہماری طاقت ایٹم بم ہے۔ ہمارے ہاں سب کو پتہ ہے جب ملک ڈیفالٹ ہو گیا تو سپر پاورز نے کدھر جانا ہے، اگر سپر پاورز کی ڈیمانڈ مان لی گئی تو سمجھ لیں ملک ختم ہو گیا۔ میں خبردار کرنا چاہتا ہوں اگر ملک ڈیفالٹ ہو گیا تو جنہوں نے بیل آؤٹ کرنا ہے ان کی ڈیمانڈ بہت بڑی ہونگی، یوکرین پر جب روس کا حملہ ہوا تو یوکرینیوں نے کہا ہم نے ایٹم بم سے متعلق بہت بڑا غلط فیصلہ کیا۔ پاکستان کے اردگرد بہت زیادہ حالات صحیح نہیں ہے، جو ہو رہا ہے سب کو معلوم ہے، اسی لیے دعا ہے ملک ڈیفالٹ نہ ہو۔ سوچنے کی بات ہے یہاں تک ہم پہنچے کیسے، ملک پر دو خاندان تیس سال ملک پر قابض ہیں، اسی دور کے دوران بھارت، بنگلا دیش بہت آگے نکل گئے۔ میری حیرت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کو واپس اقتدار میں کیوں لیکر آ گئی۔ حالانکہ ان کو تمام جماعتوں کا ٹریک ریکارڈ معلوم ہے۔ میرے ساتھ جو عوام نکلی ہے اسی وجہ سے نکلی ہے انہیں معلوم ہے کہ کرپٹ مافیا اکٹھا ہو گیا ہے۔ 25 مئی کو ہم پر ڈنڈے بھی مارے گئے، لیکن پھر بھی لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ عوام ادارے کو سگنل دے رہی ہے کہ ہم امپورٹڈ حکومت کے چوروں کو تسلیم نہیں کریں گے لیکن ادارے والے کہتے ہیں انہیں قبول کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی سائفر کو چھاپ نہیں سکتے تھے، وہ سفارتی معاملے کے خلاف چلا جاتا ہے، سائفر کی ٹرانسلیشن میں عوام کے درمیان جلسوں میں کرتا رہتا تھا، کابینہ، سپیکر، نیشنل سکیورٹی کے اجلاس سمیت تمام جگہوں پر اسے رکھا گیا،
عمران خان نے کہا کہ جمہوری نظام کو جو میں نے پڑھا ہے، یہ صرف چند ممالک میں چلتی ہے، آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، کینیڈا میں چلتی ہے، وہاں پر اخلاقیات کا معیار بہت بڑا ہے، ان ممالک میں کوئی بھی لوٹا نہیں بنتا، نہ ہی انہیں خریدا جا سکتا ہے، چھوٹی موٹی چیزیں پکڑ کر وہ اراکین کو سیاست سے باہر کر دیتے ہیں، ان ممالک میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا عوام کے پیسے کو چوری کیا جا سکے، یہ ممالک امر بالمعروف پر چلتے ہیں، اگر قوم امر بالمعروف کے ساتھ نہیں ہے تو قوم ترقی نہیں کر سکتی، پھر مجھے بتائیں ملک میں پارلیمانی ڈیمو کریسی کیسے چل سکتی ہے، میں پوچھنا چاہتا ہوں آصف زرداری، نواز شریف ملک پر اتنے ڈاکے مار کر کہتے ہیں جمہوری ملک ہے تو اس کا مطلب سسٹم ناکام ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حلقے کی سیاست والی پالیسی پر بہت زیادہ ریفارمز کی ضرورت ہے، مجھے یقین ہے آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ جیتے گا، عوام اس وقت ایک بڑی قوم بننے جا رہی ہے، میرے جلسوں میں عورتوں، بچے، بزرگ سمیت ہر طبقہ باہر نکلا، جو گھریلو عورتیں کبھی سیاست کا سوچ نہیں سکتیں وہ بھی نظام کے خلاف باہر آ رہی ہیں، یہ تمام لوگ امیدواروں کو نہیں تحریک انصاف کو جانتے ہیں۔ ملک میں سیاست کا مطلب پیسہ ہے، لوگ صرف کنٹریکٹ لینا چاہتے ہیں، کرپشن کرتے ہیں، تمام چیزوں کو نظریہ بدلے گا، آئندہ الیکشن میں ٹکٹ خود دوں گا۔
پی ٹی آئی چیئر مین نے مزید کہا کہ آئندہ الیکشن جیتنے کے بعد ملک معاشی صورتحال سے نکالنے کے لیے ابھی سے کام شروع کر دیا ہے۔ پالیسیاں تشکیل دی جا رہی ہیں، ساڑھے تین سال کا تجربہ اس وقت میرے پاس ہے، ہر چیز پر میں نے پالیسیاں بنائیں، نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم سمیت دیگر بڑے منصوبے تیار کیے، ملک میں بہت زیادہ پیسے موجود ہیں، معدنیات ، سیاحت سمیت دیگر ذخائر کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس پر کبھی کسی نے کام نہیں کیا، چین کورونا وائرس کے باعث بند ہو گیا ، اس دو سال کے دوران سب سے زیادہ پاکستان کو نقصان پہنچا، زراعت پر بہت زیادہ کام کرنا چاہتے تھے،
سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ میں نے کبھی نہیں کہا امریکا سے لڑائی لڑو، ہماری اشرافیہ کی دولت باہر ہے یہ ان سے ڈرتے ہیں، میں آزاد بندہ ہوں، تمام پاورز سے دوستی چاہتا ہوں، لیکن اپنی خود داری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا، ہمارے لوگ امریکا کے چھوٹے سے آفشل (ڈونلڈ لو) کے سامنے گرے ہوئے ہیں، یہ خود داری نہیں، مجھے اس پر بہت زیادہ غصہ آتا ہے۔ اس سے ملک بہت زیادہ ذلیل ہوتا ہے، اس وقت شہباز شریف ملک کو بہت ذلیل کر رہا ہے، پیسے مانگنے ہر وقت بھاگ رہا ہے۔
امید ہے نئی فوجی قیادت اعتماد کی کمی کے خاتمے کی کوشش کریگی: عمران خان
Congratulations to Gen Sahir Shamshad Mirza as new CJCSC & Gen Syed Asim Munir as new COAS. We hope new mly ldrship will work to end prevailing trust deficit that has built up in last 8 months between the nation and the State. Strength of the State is derived from its people. pic.twitter.com/5k4fVA2UGb
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) November 30, 2022
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے نئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست کی طاقت عوام ہی کی وجہ سے ہے۔ امید ہے نئی لیڈر شپ موجودہ صورتحال میں قوم اور ریاست کے درمیان اعتماد کی بحالی میں کردار ادا کرے گی۔ جو پچھلے 8 ماہ سے قوم اور ریاست کے درمیان پیدا ہوا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا کو بھی عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی۔ انہوں نے ساتھ ہی اپنی ٹویٹ میں قائد اعظم محمد علی جناح کا 14 اگست 1947 کو مسلح افواج کے ساتھ خطاب کے الفاظ کو بھی شئیر کیا۔