پاکستان میں ورک فورس میں خواتین کی تعداد تقریباً 23 فیصد

Published On 08 March,2023 01:02 pm

لاہور (دنیا انویسٹی گیشن سیل) آج دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ خواتین کا عالمی دن ایک مزدور تحریک کے طور پر شروع ہوا تھا اور اب یہ اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ ایک سالانہ دن ہے۔ اس دن کا آغاز 1908ء میں نیویارک شہر سے ہوا جب 15 ہزار خواتین نے کم گھنٹے کام، بہتر تنخواہوں اور ووٹ کے حق کے لیے مارچ کیا۔

یہ دن پہلی مرتبہ آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں 1911ء میں منایا گیا، جبکہ اس کی 100 سالہ تقریب 2011ء میں منعقد کی گئی۔ لہٰذا تکنیکی طور پر اس سال ہم خواتین کا 112 واں عالمی دن منا رہے ہیں۔ خواتین کے عالمی دن کو باقاعدہ طور پر 1975ء میں تسلیم کیا گیا، جب اقوام متحدہ نے بھی اسے منانا شروع کیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کی قیادت، قوت اور جرات کا اعتراف کرتے ہوئے اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی میں خواتین کی مساوی شرکت ہماری مجموعی معاشرت کے امن اور خوشحالی کے لیے نمایاں اہمیت رکھتی ہے۔

بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق کام کرنے کی عمر کی صرف 47 فیصد خواتین عالمی لیبر فورس کا حصہ ہیں جبکہ مردوں کی شرح 74 فیصد ہے اور یہ ضنفی فرق 1995ء کے بعد سے نسبتاً برقرار ہے۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان میں 7 کروڑ 17 لاکھ 60ہزار افراد ورک فورس کا حصہ ہیں، جن میں 5 کروڑ 49لاکھ 20ہزار مرد جبکہ 1 کروڑ 68لاکھ 40 ہزار خواتین شامل ہیں۔ یوں، پاکستان میں ورک فورس میں خواتین کی تعداد تقریباً 23 فیصد ہے۔

1960ء سے اب تک دنیا کے صرف 59 ممالک ایسے ہیں جہاں ایگزیکٹو پاور کا سب سے بڑا عہدہ کسی خاتون کے پاس رہا ہو۔ 2023ء کے آغاز میں خواتین کی قیادت میں دنیا کے 15 ممالک تھے، جبکہ 2022ء میں اٹلی اور ہونڈوراس نے اپنی پہلی خاتون صدر کا انتخاب کیا تھا۔ دنیا میں جمہوری طور منتخب ہونے والی پہلی خاتون وزیراعظم سری لنکا کی سریماوو بندارنائیکے تھیں، جو 1960ء ، 1970ء اور 1994ء میں سری لنکا کی وزیراعظم منتخب ہوئیں۔

عالمی سطح پر ایگزیکٹو پاور کے عہدے پر طویل ترین مدت تک خدمات انجام دینے والی خواتین میں جرمنی کی انجیلا مرکل 16 سال 16 دن، ڈومینیکا کی ڈیم یوجینیا چارلس 14 سال 328 دن جبکہ لائبیریا کی ایلن جانسن سرلیگ 12 سال 6 دن اس منسب پر فائز رہیں۔ پاکستان میں ایگزیکٹو پاور کا عہدہ واحد سابقہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے پاس مشترکہ غیر متواتر مدتوں میں 4 سال 233 دنوں کیلئے رہا۔ خطے کی سطح پر بھارت میں تین خواتین جبکہ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں دو، دو خواتین ایگزیکٹو پاور کے عہدہ پر فائز رہ چکی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی 84 رکنی کابینہ میں 9 خواتین شامل ہیں، جبکہ اس کے برعکس بھارت میں نریندر مودی کی 77 رکنی کابینہ میں 11 خواتین شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر اب تک 736 ملین خواتین جنسی یا جسمانی زیادتی کا سامنا کرچکی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق خواتین کے ساتھ زیادتی میں بیشتر اوقات ان کے موجودہ شوہر، سابقہ شوہر یا قریبی رشتہ دار کا کردار ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کم ترقی یافتہ ممالک میں خواتین پر تشدد کی شرح دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔

دنیا کے 158 ممالک میں خواتین پر گھریلو تشدد سے متعلق قوانین منظور کیے جا چکے ہیں، خاص طور پر 141 قوانین کام کرنے والی خواتین کے ساتھ ہونے والے جنسی ہراسگی سے متعلق ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال 15 ملین لڑکیوں کی شادی 18 سال سے پہلے کر دی جاتی ہے، یوں ہر منٹ میں 28 لڑکیوں کی شادی 18 سال سے کم عمر ی میں ہوتی ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں 10 ملین بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کی خواتین سے زیادتی سے متعلق رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 700 ملین خواتین ایسی ہیں جن کی شادی 18 سال سے کم عمر میں ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں 35 فیصد خواتین کو گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کے مطابق حکومت کی جانب سے عورتوں کی فلاح کیلئے 64 قوانین متعارف کرائے گئے ہیں، جن میں سے 6 قوانین 2020ء ، 9 قوانین 2021ء جبکہ 3 قوانین 2022ء میں متعارف کرائے گئے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی "گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس "رپورٹ کے مطابق 2019ء سے 2021ء کے دوران پاکستان کو صنفی امتیاز کے حوالے سے چھپنے والے153 ممالک کی فہرست میں 151 نمبر پررکھا گیا تھا جس کی بنیادی وجہ پاکستان میں کام کرنے والی خواتین کو برابر مواقع فراہم نہ کرنا اور خواتین کے ساتھ جنسی اور صنفی اعتبار سے نا مناسب رویہ ہے۔ 2022ء کی "گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس " رپورٹ کے مطابق پاکستان 146 ممالک میں سے 145 نمبر پر ہے۔

وزارت انسانی حقوق نے اسلام آباد میں شہید بینظیر بھٹو ہیومن رائٹس سینٹر برائے خواتین قائم کیا ہے جہاں خواتین کو طبی، قانونی اور بحفاظت رہائش کی سہولت میسر ہے۔ اس کے علاوہ وفاق کی جانب سے ٹول فری ہیلپ لائن 1099 جبکہ پنجاب میں ٹول فری ہیلپ لائن 1043 دیئے گئے ہیں جہاں خواتین کے ساتھ زیادتی سے متعلق شکایات درج ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں قانونی مشورے بھی دیئے جاتے ہیں۔
 

Advertisement