اسلام آباد: (دنیا نیوز) ملک میں ایک ہی وقت انتخاب کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ توقع ہے حکومت انتخابات کے لیے فنڈ نہ جاری کرنے پر نظرِ ثانی کرے گی، فنڈز نہ فراہم کرنے پر غیر معمولی نتائج آسکتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اخترپرمشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، سماعت کے لیے ابتدائی طور پر ساڑھے 11 بجے صبح کا وقت مقرر کیا گیا تھا تاہم کارروائی تاخیر کا شکار ہونے کے بعد 2 بجے شروع ہوئی ۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ معاملہ بہت لمبا ہوتا جارہا ہے، حکومت نے اپنا ایگزیکٹیو کام پارلیمان کو دیا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو وزارت خزانہ کی رپورٹ پڑھنے کی ہدایت کی ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو کہا گیا تھا کہ ضمنی گرانٹ کے بعد منظوری لی جائے گی، اس کے برعکس معاملہ ہی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا گیا، کیا الیکشن کے لیے ہی ایسا ہوتا ہے یا عام حالات میں بھی ایسا ہوتا ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ قائمہ کمیٹی نے حکومت کو ہدایت جاری کی تھی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قائمہ کمیٹی میں حکومت کی اکثریت ہے، حکومت کو گرانٹ جاری کرنے سے کرنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونی چاہیے، مالی معاملات میں تو حکومت کی اکثریت لازمی ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ قومی اسمبلی کی قرار داد کی روشنی میں معاملہ پہلے منظوری کے لیے بھیجا گیا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ جب آئین حکومت کو اختیار دیتا ہے تو اسمبلی قرارداد کیسے منظور کرسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بعد میں گرانٹ کی منظوری لینے میں خطرہ تھا۔ کیا بجٹ کے وقت حکومت کی اکثریت نہیں ہونی تھی؟ جو بات اپ کر رہے ہیں وہ مشکوک لگ رہی ہے، کیا کبھی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری لینے میں حکومت کو شکست ہوئی؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سال 2013 میں کٹوتی کی قراردادیں منظور ہوئی تھیں، موجودہ کیس میں گرانٹ جاری کرنے سے پہلے منظوری لینے کے لیے وقت تھا ، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزارت خزانہ کی ٹیم نے بار بار بتایا کہ ضمنی گرانٹ کی منظوری بعد میں لی جاتی ہے، اس کے لیے وزارت خزانہ نے آئین کے آرٹیکل 84 کا حوالہ دیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ قومی اسمبلی اس معاملے میں قرارداد منظور کرچکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں :پنجاب میں انتخابات: وزارت دفاع نے سپریم کورٹ سے حکم واپس لینے کی استدعا کر دی
جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ کیا قرار داد کی منظوری کے وقت گرانٹ منظوری کے لیے پیش کی گئی تھی، وفاقی حکومت کی اسمبلی میں اکثریت لازمی ہے، حکومت کی گرانٹ اسمبلی سے کیسے مسترد ہو سکتی ہے، کیا آپ کو سپلیمنٹری بجٹ مسترد ہونے کے نتائج کا علم ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ گرانٹ منظوری کا اصل اختیار پارلیمنٹ کو ہے، اسمبلی پہلے قرارداد کے ذریعے اپنی رائے دے چکی تھی، گرانٹ جاری ہونے کے بعد منظوری نہ ملے تو اخراجات غیر آئینی ہوتے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر حکومت سنجیدہ ہوتی تو کیا ضمنی گرانٹ منظور نہیں کروا سکتی تھی، وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونا لازمی ہے، اٹارنی جنرل صاحب سمجھنے کی کوشش کریں معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمارا نقطہ نظر سمجھ چکے ہیں، انتظامی امور قائمہ کمیٹی کو بھجوانے کی کوئی مثال نہیں ملتی، انتخابی اخراجات ضروری نوعیت کے ہیں غیر اہم نہیں ، حکومت کا گرانٹ مسترد ہونے کا خدشہ اسمبلی کے وجود کے خلاف ہے، توقع ہے کہ حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی، حکومت فیصلہ کرے یا اسمبلی کو واپس بھجوائے جواب دے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس معاملے کے نتائج غیر معمولی ہو سکتے ہیں، فی الحال غیر معمولی نتائج پر نہیں جانا چاہتے، حکومت کو عدالتی احکامات پہنچا دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے اکتوبر تک الیکشن نہیں ہوسکتے، کمیشن نے ایک ساتھ الیکشن کرانے کا بھی کہا ہے، اس بات پر کئی سوالات جنم لیتے ہیں، الیکشن کمیشن کی آبزرویشن کی بنیاد سکیورٹی کی عدم فراہمی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک میں دہشت گردی 1992 سے جاری ہے لیکن 1987، 1991، 2002، 2008، 2013 اور 2018 میں الیکشن ہوئے، سیکیورٹی کے مسائل ان انتخابات میں بھی تھے، 2008 میں تو حالات بہت کشیدہ تھے کیونکہ 2007 میں بینظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تھی اور 2013 میں دہشت گردی تھی۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اب ایسا کیا منفرد خطرہ ہے جو الیکشن نہیں ہو سکتے جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پہلے ایک ساتھ تمام سکیورٹی فورسز نے فرائض سر انجام دیے تھے، اب دو صوبوں میں الیکشن الگ ہوں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو حالات ٹھیک ہو جائیں گے، وزارت دفاع نے بھی اندازہ ہی لگایا ہے، حکومت اندازوں پر نہیں چل سکتی۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ آپریشنز میں متعین کردہ ٹارگٹ حاصل کرنے کی پوری کوشش ہے، کسی کو توقع نہیں تھی کہ اسمبلیاں پہلے تحلیل ہو جائیں گی ، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ سال ایک حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، عدالت نوٹس نہ لیتی تو قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی تھی، صوبائی اسمبلیوں کے ہوتے ہوئے قومی اسمبلیوں کے انتخابات بھی ہونے ہی تھے، آئین میں اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کا وقت مقرر ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سکیورٹی فورسز کا کام بیرونی خطرات سے نمٹنا ہے، سال 2001 سے سکیورٹی ادارے بارڈرز پر مصروف ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فنڈز اور سکیورٹی ملنے پر انتخابات کرانے کا کہا تھا۔
سپریم کورٹ نے انتخابات کے لیے فنڈز کی فراہمی سے متعلق حکومت سے دوبارہ جواب طلب کرلیا جبکہ عدالت نے تمام سیاسی جماعتوں کو بھی طلب کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی ۔
کیس کا پس منظر
گزشتہ روز وزارت دفاع نے سپریم کورٹ میں سربمہر رپورٹ جمع کروائی جس میں انتخابات کا حکم واپس لینے کی استدعا کی گئی تھی۔
وزارت دفاع نے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں استدعا کی تھی کہ ملک بھر ایک ساتھ انتخابات کرائے جائیں، دہشتگردوں اور شرپسندوں کی جانب سے انتخابی مہم پر حملوں کا خدشہ ہے۔
وزارت دفاع نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ قومی، بلوچستان اور سندھ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے پر ہی انتخابات کرائے جائیں، جبکہ سپریم کورٹ نے سٹیٹ بینک کو 17 اپریل تک پنجاب میں انتخابات کیلئے فنڈز جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔