پشاور: (دنیا نیوز) پشاور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ سویلین کیسز ملٹری کورٹ میں چلانے کیلئے آئین کی تشریح کی ضرورت ہے۔
فوجی تنصیبات پر حملے میں ملوث ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی ہے۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے سویلین مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دئیے کہ آرمی آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں تو کورٹ مارشل ہوتا ہے، سویلین کے کیسزآفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیسے چلائے جاسکتے ہیں؟ ان مقدمات میں آئین کی تشریح کی ضرورت ہے، فریقین تیاری کر لیں، 13 جون کو کیس دوبارہ سنیں گے۔
وکیل درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری کیخلاف 9 مئی کو ہونے والے پرتشدد واقعات کے مقدمات میں نامزد 7 ملزموں کو ملٹری کورٹس کے حوالے کیا گیا ہے۔
درخواست کے متن کے مطابق سویلین کے مقدمات ملٹری کورٹ میں نہیں چلائے جاسکتے ہیں، سویلین کے مقدمات ملٹری کورٹ میں چلانے کے لیے ایکٹ میں ترمیم کرنا ہوگی۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ مقدمات میں آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 59 اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 3 کو شامل کیا گیا ہے، جبکہ عام شہریوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کرنا غیر قانونی ہے اور یہ ناصرف بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ورزی ہے بلکہ انٹرنیشنل قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
درخواستگزار کے وکیل کے مطابق 23 ویں ترمیم کے بعد سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں ہوسکتا۔
سرکاری وکیل نے دوران سماعت کہا کہ پہلے ہی ایف آئی آر میں آرمی ایکٹ شامل نہیں ہے، ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر آفیسر اپنی رائے دے چکا ہے۔
بعدازاں عدالت نے وکلاء کو کہا کہ تیاری کریں 13 جون کو اس کیس کو دوبارہ سنیں گے اور کیس کی مزید سماعت 13 جون تک ملتوی کر دی۔