اسلام آباد: (دنیا نیوز) جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کیخلاف کیس میں فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دے دی۔
نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں ہوئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ عدالت پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا فیصلہ کرے یا فل کورٹ تشکیل دے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔
انہوں نے ملٹری ٹرائل کیس میں لکھے اپنے نوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس کو فل کورٹ کو سننا چاہیے، آج بھی چیف جسٹس پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ نیب ترامیم کیس فل کورٹ سنے، ابھی تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا فیصلہ نہیں ہوا، اگر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ ہو جاتا تو معاملہ مختلف ہوتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ فریقین آئندہ سماعت پر حتمی دلائل دیں، یہ کیس 2022 سے زیر التواء ہے، ضروری نہیں کیس کے میرٹس پر فیصلہ دیں، نیب ترامیم کیخلاف دائر کی گئی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر بھی فیصلہ دے سکتے ہیں، 2023 میں نیب قانون میں کی گئی ترامیم کو ہمارے سامنے کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ کیس کو نمٹانا چاہتے ہیں کیونکہ بنچ کے ایک رکن کی ریٹائرمنٹ قریب ہے، یہ انتہائی اہم مقدمہ ہے، مجھے ہرصورت فیصلہ دینا ہو گا، اگر فیصلہ نہ دے سکا تو میرے لئے باعث شرمندگی ہو گا۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت 28 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ 28 اگست سے روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کریں گے۔