اسلام آباد: (دنیا نیوز) نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ آئین میں مقرر کردہ وقت سے ایک لمحہ بھی اوپر اقتدار میں نہیں رہیں گے، آئین کے مطابق الیکشن کمیشن انتخابات کا اعلان کرے گا، نگران حکومت معاونت کرےگی، شہباز شریف کا مجھ سے رابطہ حیرت انگیز تھا، میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وزیر اعظم بنوں گا۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ حکومت بجلی بلوں کا مختصر مدتی حل تجویز کرنے جا رہی ہے، توانائی کی بچت کیلئے چند دنوں میں عملی اقدام نظر آئے گا، صوبوں کے ساتھ مل کر فیصلہ کریں گے، ملک میں ایک ایسا طبقہ ہے جس پر بے انتہا بوجھ پڑ چکا ہے، ایک سال پہلے اپنا بجلی کا بل دیکھ کر میرے بھی ہوش اڑ گئے تھے، سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بجلی بل کیسے بھروں گا۔
انہوں نے کہا مجھے نگران وزیر اعظم بننے سے دو تین روز قبل سابق وزیر اعظم شہبازشریف نے پیغام بھیجا تھا کہ کیا آپ اسلام آباد میں دستیاب ہیں جس پر میں نے مثبت جواب دیا تھا اور پھر مجھے بتایا گیا کہ ہم آپ کو ایک اہم ذمے داری کیلئے زیر غور لا رہے ہیں تو آپ ذہنی طور پر تیار رہیں۔
نگران وزیر اعظم نے کہا ہے کہ بجلی بلوں کے حوالے سے میرے الفاظ ہمارے کچھ صحافیوں کی مہربانی ہے جنہوں نے ہڑتال اور پہیہ جام کے الفاظ کو مجھ سے منسوب کر کے پورے پاکستان میں پھیلا دیا، 40 منٹ دورانیے کی ریکارڈنگ ہے اور ان دونوں الفاظ میں سے کسی کا استعمال کیا گیا ہو تو میں جرمانہ ادا کرنے کیلئے تیار ہوں، بجلی کے بلوں کا مسئلہ کثیر الجہتی ہے۔
انہوں نے کہا بطور نگران وزیر اعظم پہلے اجلاس پاور ٹیرف اور ٹیکسیشن کے حوالے سے کیے تھے، ہم نے دو شعبوں کو ترجیح دی، یہ مسئلہ مختلف مالیاتی اداروں کی شرائط سے جڑا ہے، انہیں حل کرنے میں وقت لگتا ہے اور ہم نے اب تک سب سے زیادہ وقت انہی مسائل کے حل پر لگایا ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ قانون یہ کہتا ہے کہ انتخابات کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے، کل کو اس قانون کے حوالے سے سوالات اعلیٰ عدلیہ کے سامنے آتے ہیں اور وہاں آئینی ماہرین کوئی قانونی پوزیشن لیتے ہیں تو اس کے جو قانونی نتائج برآمد ہوں گے ہم اس کے پابند ہوں گے، اس وقت میرا کوئی پوزیشن لینے یا نہ لینے کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اہمیت قانون کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک اعلیٰ عدلیہ کا کوئی فیصلہ نہیں آجاتا تو ہم پابند ہیں کہ ان قوانین کی روشنی میں اپنا طرز عمل اختیار کریں، اگر اعلیٰ عدلیہ نے 90 دن میں الیکشن کرانے کا کہا تو ہم الیکشن کرائیں گے، اس پر کسی کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے، اعلیٰ عدلیہ کی تکریم اور احترام پر کوئی سمجھوتہ کرتے ہیں اور عدلیہ کا اہم ستون بے ترتیب ہوتا ہے تو ہمارے طرز زندگی اور نظام سیاست پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے مزید کہا ہے کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرتی ہے جس قسم کی بھی تشریح کرتی ہے تو وہ دونوں صورتوں میں ہمارے لیے قابل قبول ہوتی ہے، یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم قوانین کی تشریح کرنا شروع کر دیں۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ بلوچ شدت پسندوں اور ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافے کی وجہ نا صرف افغانستان میں اندرونی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلی ہے بلکہ اس سے زیادہ وہ سامان، ہتھیار اور آلات ہیں جو امریکا اور اس کے اتحادی چھوڑ کر گئے ہیں، یہ ناصرف پاکستان بلکہ پورے خطے کیلئے بڑا خطرہ ہیں، ان آلات اور ہتھیاروں نے شدت پسندوں کو اضافی استعداد اور قوت فراہم کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کے پاس مذاکرات اور طاقت دونوں کے استعمال کا حق ہوتا ہے، ریاست کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ پرامن سماجی نظام کے حصول کیلئے مذاکرات کامیاب ہوں گے یا طاقت کا استعمال زیادہ موثر رہے گا، اس وقت دونوں ہی طریقوں کا استعمال کرنا پڑے گا، ہم پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں، یہ سب خوشحال، مستحکم اور پرامن پاکستان کے تصور سے جڑا ہوا ہے۔
نگران وزیر اعظم نے کہا ہے کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ پوری دنیا نے دیکھا، تمام بڑے بین الاقوامی آزاد اداروں نے حملوں کی کوریج کی جس پر انہوں نے بھی ایک رائے قائم کی کہ اس طرح کی ہلڑ بازی کسی بھی جمہوری حکومت یا غیرجمہوری طرز حکومت میں ناقابل برداشت ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جانے کی کوشش تھی جس میں ہدف موجودہ آرمی چیف اور ان کی ٹیم تھی۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ ہمارا تاریخی طور پر رشتہ دوستانہ نہیں رہا، ہم آپس میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں، ایک دوسرے کی ضد کی وجہ سے جوہری ہتھیار بنا لیے، انہوں نے 1971 میں ہمارا ایک بازو کاٹنے میں مدد کی ، وہ بطور ہمسایہ ہم سے بھی زیادہ مطمئن نہیں ہیں، پھر سب سے بڑھ کر کشمیر ایک حل طلب تنازع ہے، کشمیر کے بغیر کوئی مذاکرات یا تجارت نہیں ہو سکتی۔