مظفر آباد: (محمد اقبال) آزاد جموں و کشمیر میں بلدیاتی ادارے تباہی کے دھانے پر پہنچ گئے، دار الحکومت سمیت دیگر شہروں میں صاف پانی کی فراہمی، غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کا خاتمہ خواب بن کر رہ گیا۔
آزاد جموں و کشمیر کے شہری علاقوں میں بڑھتی آبادی کے پیش نظر موثر منصوبہ بندی اور قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے میونسپل کارپوریشنز اور میونسپل کمیٹیز جیسے اہم شہری ادارے وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ناقص کار کردگی کے باعث اپنی اہمیت بھی کھو رہے ہیں۔
دارالحکومت کی وجہ سے میونسپل کارپوریشن مظفرآباد کو باقی اضلاع کی نسبت خاص اہمیت حاصل ہے، جہاں 8 اکتوبر 2005 کے زلزلہ کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے شہر کنکریٹ کا جنگل بن گیا۔
سفارشی نظام کی وجہ سے دریاؤں کے قریب اور ندی نالوں پر تعمیرات کر کے ہزاروں گھر تعمیرکردیے گئے، صاف پانی کی فراہمی سمیت سلاٹر ہاؤس کی تعمیر ہوئی اور نہ ہی سیوریج لائنیں دریاؤں میں ڈالنے کا سلسلہ تھم سکا۔
مظفرآباد بلدیہ حکام کے مطابق20 کلو میٹر رقبے پر 4 لاکھ آبادی کو سروسز فراہم کی جارہی ہیں، تنخواہوں کے علاوہ اضافی کوئی بجٹ نہیں مل رہا، ادارے کے ملازمین اپنے محدود وسائل میں کام کررہے ہیں۔
میونسپل کارپوریشن مظفرآباد میں کل328 ملازمین ہیں جن میں 168 خاکروب ہیں، اتنی افرادی قوت کے باوجود بھی بلدیہ حدود میں مانک پیاں سمیت متعدد علاقوں کے اندر صفائی اور دیگر بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔