انٹرا پارٹی الیکشن کیس: بیرسٹر علی ظفر کی عدالت میں تاخیر سے پہنچنے پر معذرت

Published On 09 January,2024 10:14 am

پشاور: (دنیا نیوز) پشاور ہائیکورٹ میں انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان واپسی سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی پر مشتمل بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، پی ٹی آئی وکیل شاہ فیصل اتمانخیل اور الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر شاہ مہمند عدالت میں پیش ہوئے۔

پی ٹی آئی وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ بیرسٹر گوہر راستے میں ہیں، کیس کو کچھ دیر کیلئے ملتوی کر دیا جائے۔

اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہم جواب جمع کرتے ہیں، جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ ابھی جواب جمع کر لیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دی۔

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو قاضی انور ایڈووکیٹ نے کہا کہ ابھی تک بیرسٹر گوہر نہیں پہنچے۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ کیا آپ کی دلچسپی نہیں ہے، ہم سپریم کورٹ میں ساڑھے 8 بجے پہنچ جاتے ہیں، یہ کونسا طریقہ ہے بنچ کوانتظار کروایا جا رہا ہے، ہم جب فیصلہ کر لیں گے تو ان کیلئے کیا رہ جائے گا۔

قاضی انور ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ بس تھوڑا وقت دیا جائے، کچھ دیر میں پہنچ جائیں گے۔

اس کے بعد عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنا جواب جمع کرا دیا ہے، اگر کوئی نہیں ہے تو انہیں نوٹس دے دیتے ہیں۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ اعتراض کرنے والے وکلا کو بھی طلب کیا جائے، تحریک انصاف کے انتخابات کا سب سے پہلے اعتراض اکبر ایس بابر کا ہے وہ کہاں ہیں۔

درخواست گزار نے کہا کہ میرا وکیل ہڑتال کی وجہ سے کورٹ میں نہیں آ رہا، جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ یہ کورٹ ہے ہمارا ہڑتال سے کوئی سروکار نہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 13 تاریخ کو الیکشن کمیشن امیدوار کو انتخابی نشانات الاٹ کرے گا، پی ٹی آئی کو اگر نشان الاٹ نہیں ہوتا تو وہ آزاد تصور ہوں گے، ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کو عبوری ریلیف دیا وہ ختم ہوگیا ہے۔

جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ اگر ہم آج فیصلہ کر لیں تو یہ مسئلہ ختم ہو سکتا، سپریم کورٹ میں کیس کی ضرورت نہیں۔

اس موقع پر بیرسٹر گوہر کی تاخیر پر قاضی انور ایڈووکیٹ نے عدالت سے معذرت کی، جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ ان کو سمجھا دیں کہ وقت پر آیا کریں مزید انتظار نہیں ہوگا۔

جسٹس اعجاز انور نے ایک بار سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ ایک بج کر 15 منٹ پر دوبارہ سماعت ہوگی، مزید کوئی وقت نہیں دیا جائے گا۔

اتنے میں پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر گوہر علی خان پشاور ہائیکورٹ پہنچ گئے۔

سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے تاخیر سے پہنچنے پر معذرت کر لی اور اس کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا گیا۔

بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کو شکایات دینے والوں نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی استدعا کی تھی، پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات جون 2022 میں کرائے، ہم نے الیکشن کمیشن کو ریکارڈ پیش کیا، بعد میں الیکشن کمیشن نے اس پر سوالات اٹھانا شروع کئے اور آخر میں الیکشن کمیشن نے 20 روز میں دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا حکم دیا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے، جب الیکشن کرائے تو الیکشن کمیشن نے کہا کہ اعتراض آگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اعتراضات دینے والے غیر متعلقہ لوگ ہیں، الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات پر کوئی سوال نہیں اٹھایا، الیکشن کمیشن نے کہا سیکرٹری جنرل عمر ایوب کی تعیناتی درست نہیں اور عمر ایوب کی تعیناتی پر انتخابات کو کالعدم قرار دیا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابات کالعدم قرار دینے کے بعد انتخابی نشان لے لیا گیا، اب پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد ہوں گے، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے بھی محروم ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ جنہوں نے اعتراضات اٹھائے ہیں ان میں کوئی بھی پارٹی کے ممبر نہیں ہیں، ہمارے 8 لاکھ ووٹرز میں اعتراض کرنے والوں کے نام شامل نہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اگر آج فیصلہ نہ ہوا تو کروڑوں لوگ پارٹی کے حقوق سے محروم رہ جائیں گے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ اعتراضات کرنے والوں نے کہا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات پی ٹی آئی آئین کے مطابق نہیں، یہ مسئلہ صرف 14 اعتراضات کرنے والوں کا نہیں پارٹی انتخابات کا ہے، اعتراض کرنے والوں کو کیوں انٹرا پارٹی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کسی بھی شخص کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی، سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 22 دسمبر کو پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیئے تھے۔

پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس کامران حیات نے 26 دسمبر کو الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا تھا، جبکہ پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز خان نے 3 جنوری کو معطلی کا فیصلہ واپس لیا تھا۔