لاہور: (دنیا نیوز) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے دھاتی ڈور بنانے، بیچنے اور خریدنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دے دیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت خصوصی اجلا س ہوا جس میں امن وامان کی عمومی صورتحال کا جائزہ لیا گیا، اجلاس کے دوران آئی جی پنجاب عثمان انور نے صوبے میں امن وامان کی صورتحال کے بارے میں وزیراعلیٰ کو بریفنگ دی۔
اجلاس میں سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب، سابق سینیٹر پرویز رشید، صوبائی وزیر اطلاعات و ثقافت عظمیٰ بخاری،معاون خصوصی ذیشان ملک،ایم پی اے ثانیہ عاشق نے شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیں: صحت مند پنجاب کیلئے ٹی بی کے خاتمے کی جنگ جیتنا ہوگی: مریم نواز
چیف سیکرٹری، آئی جی پنجاب، سی سی پی او لاہور، ایڈووکیٹ جنرل، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر لاہور بھی اجلاس میں شریک تھے جبکہ صوبائی سیکرٹری داخلہ، تمام کمشنرز، آر پی اوز، ڈپٹی کمشنرز، ڈی پی اوز نےویڈیولنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے پولیس افسروں کی کارکردگی کا تجزیہ کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی اور جرائم پر مبنی روزانہ کی بنیاد پر اپ ڈیٹڈ رپورٹ طلب کرلی۔
مریم نواز نے پتنگ بازی کے پے درپے واقعات پر اظہار تشویش کیا اور دھاتی ڈور بنانے، بیچنے اور خریدنے والوں کیخلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائیں ،پتنگ کے تار سے لگنے کے باعث جاں بحق ہونے والے بچے کی وڈیو دیکھ کر دل کانپ گیا، معصوم بچے کی جان جانے سے والدین کی دنیا تباہ ہو گئی۔
انہوں نے کہا کہ پتنگ بازی کے سدباب کے لئے قوانین موجود ہیں مگر پھر بھی لوگ جان سے جارہے ہیں، قانون پر عمل درآمد کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے، کیس رجسٹر کرنا کافی نہیں،ملزم کو سزا ہونی چاہئے ۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے اسلحہ کی سرعام نمائش روکنے کے لئے قانون پر عمل درآمد کےلئے فوری اقدامات کا حکم دیا، اجلاس میں منشیات کی ترسیل روکنے کے لئے فول پروف میکنزم تیار کرنے پر بھی اتفاق ہوا۔
مریم نواز نے کہا کہ بڑے منشیات فروشوں کے خلاف ناقابل تردید ثبوت کے ساتھ کیس بنائے جائیں، تعلیمی اداروں میں منشیات کی آن لائن ترسیل روکنے کا قانونی میکنزم وضع کیا جائے، پنجاب میں کہیں نو گو ایریا بنانے کے اجازت نہیں دیں گے، قانون کی عمل داری یقینی بنائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ زیادتی کے واقعات میں کمی آنی چاہیے، اس حوالے سے خصوصی اقدامات کیے جائیں ، ریپ کے کیسز میں ملزمان کو سزا دیکر نشان عبرت بنایا جائے، بچوں، ملازمین اور گھریلو تشدد کے واقعات کیوں نہیں رک رہے۔