لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) 10ھ میں آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ حج ادا کیا اور آپﷺ نے انسانی حقوق کے تحفظ کا عالمی و ابدی خطبہ دیا جس میں پوری 23 سالہ تعلیمات الہٰی کا خلاصہ پیش کیا۔
اختتام خطبہ پر پورے مجمع نے بیک آواز و زبان کہا بے شک آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کے احکام کو ہم تک پہنچا دیا اور اسے ہم دوسروں تک پہنچائیں گے، خطبہ حجۃ الوداع میں رسول اللہﷺ نے انسانیت کی عظمت، احترام اور حقوق پر مبنی ابدی تعلیمات اور اصول عطا کئے مگر سیرت نبویﷺ میں حقوق انسانی سے متعلق یہ واحد دستاویز نہیں، آپﷺ کی پوری زندگی انسانیت نوازی اور تکریم انسانیت کی تعلیمات سے عبارت ہے۔
نبی کریمﷺ نے اپنی مبارک زندگی میں صرف ایک ہی حج ادا فرمایا، حج کے دن حضورﷺ عرفہ تشریف لائے اور وہاں قیام فرمایا، جب سورج ڈھلنے لگا تو آپﷺ اپنی اونٹنی (قصویٰ) پر بطن وادی میں تشریف فرما ہوئے اور اپنا وہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں دین کے اہم امور بیان فرمائے، امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی نے خطبہ حجۃ الوداع کے درج ذیل اہم نکات تحریر کئے ہیں۔
اِبتدائیہ: آپ ﷺ نے خطبے کی یوں ابتدا فرمائی، خدا کے سوا کوئی اور معبود نہیں، وہ یکتا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا، اس نے اپنے بندے (رسولﷺ) کی مدد فرمائی اور تنہا اس کی ذات نے باطل کی ساری مجتمع قوتوں کو زیر کیا، لوگو! میری بات سنو، میں نہیں سمجھتا کہ آئندہ کبھی ہم اس طرح کسی مجلس میں یکجا ہو سکیں گے۔
مساواتِ اِنسانی کا تصور: ’’لوگو! اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے انسانو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا کہ تم الگ الگ پہچانے جا سکو، تم میں زیادہ عزت و کرامت والا خدا کی نظروں میں وہی ہے جو خدا سے زیادہ ڈرنے والا ہے‘‘، اس آیت کی روشنی میں نہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے سے۔ ہاں! بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے‘‘۔
نسلی تفاخر کا خاتمہ: ’’قریش کے لوگو! خدا نے تمہاری جھوٹی نخوت کو ختم کر ڈالا اور باپ دادا کے کارناموں پر تمہارے فخر و مباہات کی کوئی گنجائش نہیں‘‘۔
زندگی کا حق: ’’لوگو! تمہارے خون و مال اور عزتیں ہمیشہ کیلئے ایک دوسرے پر قطعاً حرام کر دی گئی ہیں، ان چیزوں کی اہمیت ایسی ہی ہے جیسی اس دن کی اور اس ماہ مبارک (ذی الحجہ) کی خاص کر اس شہر میں ہے، تم سب خدا تعالیٰ کے حضور جاؤ گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس فرمائے گا، دیکھو کہیں میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ آپس میں ہی کشت و خون کرنے لگو‘‘
مال کے تحفظ کا حق: ’’اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ اس بات کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت پہنچا دے‘‘۔
اَفرادِ معاشرہ کا حق: ’’لوگو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘
خادموں کا حق: ’’اپنے غلاموں کا خیال رکھو، ہاں غلاموں کا خیال رکھو، انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، ایسا ہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو‘‘۔
لاقانونیت کا خاتمہ: ’’دور جاہلیت کا سب کچھ میں نے اپنے پیروں تلے روند دیا، زمانہ جاہلیت کے خون کے سارے انتقام اب کالعدم ہیں، پہلا انتقام جسے میں کالعدم قرار دیتا ہوں، میرے اپنے خاندان کا ہے‘‘۔
نومولود کا تحفظِ نسب: ’’بچہ اس کی طرف منسوب کیا جائے گا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا، جس پر حرام کاری ثابت ہو اس کی سزا سنگساری ہے، ان کا حساب اللہ کے ہاں ہوگا‘‘
قرض کی وصولی کا حق: ’’قرض قابلِ ادائیگی ہے، عاریتاً لی ہوئی چیز واپس کرنی چاہئے، تحفے کا بدلہ دینا چاہئے‘‘۔
ملکیت کا حق: ’’کسی کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے، سوائے اس کے جس پر اس کا بھائی راضی ہو اور خوشی خوشی دے، خود پر اور ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو‘‘۔
خاوند اور بیوی کے باہمی حقوق: ’’عورت کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی اِجازت کے بغیر کسی کو دے، تمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں، اسی طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہیں، عورتوں پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ اپنے پاس کسی ایسے شخص کو نہ بلائیں جسے تم پسند نہیں کرتے، وہ کوئی خیانت نہ کریں، کوئی کام بے حیائی کا نہ کریں، اگر وہ ایسا کریں تو خدا کی جانب سے اجازت ہے کہ تم انہیں معمولی جسمانی سزا دو، وہ باز آجائیں تو انہیں اچھی طرح کھلاؤ پہناؤ‘‘۔
قانون کی اِطاعت: ’’میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ تم کبھی گمراہ نہ ہو سکو گے اگر اس پر قائم رہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اور ہاں دیکھو، دینی معاملات میں غلو سے بچنا کہ تم سے پہلے کے لوگ انہی باتوں کے سبب ہلاک کر دیئے گئے‘‘۔
اللہ کے حقوق: ’’لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ وقت کی نماز ادا کرو، روزے رکھو، اپنے مالوں کی زکوٰۃ خوش دلی کے ساتھ دیتے رہو، حج کرو اور اپنے اہل اَمر کی اطاعت کرو تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے‘‘۔
اِنصاف کا حق: ’’آگاہ ہو جاؤ! اب مجرم خود ہی اپنے جرم کا ذمہ دار ہوگا، اب نہ باپ کے بدلے بیٹا پکڑا جائے گا اور نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا‘‘۔
خواتین کے حقوق: ’’عورتوں سے بہتر سلوک کرو کیونکہ وہ تو تمہاری پابند ہیں اور خود اپنے لئے وہ کچھ نہیں کر سکتیں، ان کے بارے میں خدا تعالیٰ کا لحاظ رکھو کہ تم نے انہیں اللہ تعالیٰ کے نام پر حاصل کیا اور اسی کے نام پر وہ تمہارے لئے حلال ہوئیں‘‘۔
نبی کریمﷺ کا حق: ’’اور لوگو! تم سے میرے بارے میں (خدا کے ہاں) سوال کیا جائے گا، بتاؤ تم کیا جواب دو گے؟ لوگوں نے جواب دیا: ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپﷺ نے امانت (دین) پہنچا دی اور آپﷺ نے حق رسالت ادا فرما دیا‘‘۔
اثرات و نتائج: خطبہ کے آخر میں آپﷺ نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے؟ تو تمام حاضرین نے اقرار کیا کہ بیشک آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک پہنچا دیا ہے، حاضرین کے اقرار پر آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھہراتے ہوئے فرمایا: اے اللہ، تو گواہ رہنا، اس کے بعد آپﷺ نے دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری ہمیشہ کیلئے امت محمدیہﷺ کو سونپتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’جو لوگ حاضر ہیں، وہ غائب تک پہنچا دیں ‘‘ (صحیح بخاری: 67)۔
اللہ اس عظیم خطبہ کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 35 آرٹیکلز بھی شائع ہو چکے ہیں۔