لاہور: (مولانا قاری محمد سلمان عثمانی) ٹھنڈا پانی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں، رسول اللہﷺ کی دعا مبارکہ ہے ’’اے اللہ! میرے دل میں اپنی محبت، میری جان اور میرے اہل اور ٹھنڈے پانی کی محبت سے بھی زیادہ پیاری بنا دے‘‘(جامع الترمذی )۔
اس فرمان نبویﷺ میں اللہ تعالیٰ کی محبت کو ٹھنڈے پانی کی محبت سے زیادہ کرنے کی دعا کی گئی ہے جس سے پتہ چلا کہ ٹھنڈا پانی بڑی عظیم نعمت ہے، پانی پلانے کو احادیث مبارکہ میں ’’صدقہ جاریہ‘‘ فرمایا گیا جس کا ثواب مرنے کے بعد انسان کو ملتا رہتا ہے، نلکا، ٹینکی، کنواں، ٹیوب ویل وغیرہ کی شکل میں غریبوں اور ناداروں کیلئے پانی کا انتظام کرنا مرحومین کے ایصال ثواب اور ان کیلئے اجر ِآخرت اورصدقہ جاریہ ہوسکتا ہے۔
حضرت سیدنا سعد بن عبادہؓ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا: کہ اے اللہ کے رسولﷺ میری والدہ وفات پا گئی ہیں اور ان کی طرف سے کونسا صدقہ افضل رہے گا؟ رسول اللہﷺنے فرمایا ’’پانی کا صدقہ‘‘،چنانچہ انہوں نے ایک کنواں کھدوا کر وقف کر دیا اور کہا یہ سعد کی والدہ کے ثواب کیلئے ہے (سنن ابی داؤد)۔
پانی پلانا بہترین صدقہ بھی ہے پیاسوں کی سیرابی کا یہ عمل ایک بہترین صدقہ ہے جس کی ترغیب حدیث مبارکہ میں دی گئی ہے چنانچہ حضرت سیدناعبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا: آقا کونسا صدقہ افضل ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’بہترین صدقہ پانی پلانا ہے‘‘ کیا تم نے جہنمیوں کے اِس قول کو نہیں سنا جب انہوں نے اہل جنت سے مدد چاہی اور جنتیوں سے کہا ’’ہم پر تھوڑا ساپانی ڈال دو یا کچھ اس چیزمیں سے دو جو تمہیں اللہ نے رزق دیا ہے (سورۃ الاعراف: 50)۔
ابن ماجہ میں سیدہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت میں ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’جہاں پانی کی کثرت ہو اس جگہ اگر کسی نے پانی پلایا تو اس کو غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا اور جہاں پانی کی کثرت نہ ہو(یعنی بمشکل پانی ملے) ایسی جگہ اگر کسی نے پانی پلایا تو اس کو ایسا ثواب ملتا ہے جیسے مردہ کو زندہ کر دیا‘‘ (سنن ابن ماجہ)۔
پانی پلانے کا عمل نہایت معمولی ہونے کے باوجود ثواب، اجر آخرت اور رضائے الہٰی کا بہت بڑا ذریعہ ہے، بروزِ محشر مغفرت وبخشش کا باعث ہے، صرف اس عمل کی وجہ سے انسان جہنم سے خلاصی حاصل کر کے جنت کا مستحق ہوسکتا ہے، اس مضمون کو صحیح بخاری کے اس واقعہ میں یوں بیان کیا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک آدمی چل رہا تھا اس دوران اسے پیاس لگی وہ ایک کنویں میں اُترا اور اس نے پانی پیا، کنویں سے باہر نکلا تو دیکھا ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہا ہے، اس نے کہا کہ اس کو بھی ویسی ہی پیاس لگی ہے جیسی مجھے لگی تھی، اس نے موزہ پانی سے بھرا، اسے منہ سے پکڑا، پھر اوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالیٰ نے اس کی نیکی قبول فرمائی اور اس کو بخش دیا، لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ!کیا چوپائے (جانوروں کے ساتھ نیکی اور رحم و کرم کے عمل) میں بھی ہمارے لئے اجر ہے، آپ ﷺنے فرمایا ’’یعنی ہر تر جگر والے یعنی جاندار میں ثواب ہے(صحیح بخاری)۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’جو مسلمان کسی ننگے کو کپڑا پہنائے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا سبز لباس پہنائے گا اور جو مسلمان کسی بھوکے کو کھانا کھلائے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا پھل کھلائے گا جو مسلمان کسی پیاسے کو پانی پلائے تو اس کو اللہ تعالیٰ جنت کی شراب پلائے گا‘‘(سنن ابی داؤد)۔
امام بیہقی المتوفی 458ھ نے ’’السنن الکبری‘‘میں ایک روایت نقل کی ہے، ایک اعرابی رسول اللہ ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتلائیں جو مجھے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے قریب اور جہنم سے دور کر دے، آپﷺ نے فرمایا:کیا تم ان دو چیزوں پر عمل کرو گے، اس نے عرض کیا:ہاں،آپﷺ نے فرمایا انصاف کی بات کہو اور زائد چیزیں دوسروں کو مرحمت کردو۔
اعرابی نے عرض کیا اللہ کی قسم میں نہ تو انصاف کی بات کر سکتا ہوں اور نہ اپنے مال سے زائد چیز کسی کو دے سکتا ہوں، پھر آپﷺ نے فرمایا کھانا کھلاؤ اور سلام کرو، اس نے عرض کیا: یہ بھی مشکل ہے، پھر آپﷺ نے فرمایا کیا تیرا اپنا اونٹ ہے؟ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا!جاؤ اپنا اونٹ اور مشکیزہ لو پھر’’ان لوگوں کے گھر جاؤ جن کو کبھی کبھی پانی ملتا ہے اُن کو پانی پلاؤ شاید کہ تمہارا اونٹ ہلاک ہو اور تمہارا مشکیزہ پھٹ جائے اس سے پہلے کہ تمہارے لئے جنت واجب ہو جائے گی‘‘۔
راو ی کہتے ہیں کہ وہ دیہاتی تکبیر کہتا ہوا چلا، کہتے ہیں کہ اس کے مشکیزہ کے پھٹنے اور اونٹ کے ہلاک ہونے سے پہلے وہ شہادت حاصل کر چکا تھا(السنن الکبری)۔
نہ صرف انسانوں کی تشنگی کا سامان کرنے پر ہی ثواب ملتا ہے بلکہ کسی پیاسے، سلکتے بلکتے اور پیاس کی شدت سے تڑپتے ہوئے جانور کیلئے پانی پلانے اور سیرابی کا سامان کرنے پر اجروثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔
حضرت سراقہ ؓ سے مروی ہے کہ میں نبی اکرمﷺ کے مرض الوصال میں حاضر خدمت ہوا میں نے رسول اللہ ﷺسے سوالات پوچھنا شروع کر دئیے حتیٰ کہ میرے پاس سوالات ختم ہوگئے تو نبی اکرمﷺنے فرمایا: ’’کچھ اور یاد کرو‘‘اُن سوالات میں سے ایک سوال میں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ یارسول اللہ ﷺ وہ بھٹکتے ہوئے اونٹ جو میرے حوض پر آئیں تو کیا مجھے ان کو پانی پلانے پر اجروثواب ملے گا جب کہ میں نے وہ پانی اپنے اونٹوں کے لئے بھرا ہے، حضور اکرمﷺ نے فرمایا ہاں ہر تر جگر رکھنے والے (کے ساتھ رحم وکرم اورنیکی والے عمل)میں اجر وثواب ہے(مسند احمد)۔
رسول اللہﷺ نے ان لوگوں کیلئے و عید بھی سنائی ہے جو اپنی ضرورت سے زیادہ پانی کو دوسروں پر خرچ کرنے سے بخل سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کو فائدہ اٹھانے سے روکتے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا اور نہ ہی ان پر نظر رحمت فرمائے گا، ایک وہ شخص جو جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان تجارت فروخت کرتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس کی قیمت حاصل کر سکے، دوسرا وہ شخص جو نماز عصر کی جھوٹی قسم کھائے تاکہ کسی مسلمان کو مال ہڑپ لے اور تیسرا وہ شخص جو اپنی ضرورت سے زائد پانی کو لینے سے دوسروں کو روکے۔
ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ جس طرح تم نے دنیا میں زائد پانی سے دوسروں کو روکا تھا جبکہ اس میں تمہارے عمل کا کوئی دخل نہیں تھا، آج میں تم کو اپنے فضل سے محروم رکھوں گا اور اپنا فضل تم پر نہیں کروں گا(صحیح بخاری )۔
مولانا محمد سلمان عثمانی ختم نبوت اسلامک سنٹر کے ناظم اور کالم نگار ہیں، ان کے مضامین بیشتر اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے ہیں۔