اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ ریاست کیخلاف ہتھیار اٹھانے والوں کا بندوبست کیا جائے گا۔
پریذائیڈنگ آفیسرعرفان صدیقی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا۔
اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کوئٹہ میں تفصیل کیساتھ سٹیک ہولڈرز سے گفتگو کی، وزیراعظم نےبلوچستان کی ہر ڈویژن کیلئے فنڈز مختص کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو ریاست کو مانتے ہیں وہ ہمارے لیے محترم ہیں، ان کو سر پر بٹھائیں گے، ریاست کو نہ ماننے والے اور ہتھیار اٹھانے والے دہشتگرد ہیں، جو ریاست کیخلاف جائے گا اس کیخلاف کارروائی ہوگی، دہشتگردوں کا بندو بست کیا جائے گا۔
وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ اپیکس کمیٹی نیشنل ایکشن پلان کے فیصلوں کو ریویو کرتی ہے، پارلیمنٹ سپریم ہے اور رہی گی، فی الحال کوئی آپریشن نہیں ہو رہا، بلوچستان میں سب سے بڑا مسئلہ افسران کی عدم دستیابی ہے، وفاق سے افسران بلوچستان جارہے ہیں۔
قائد حزب اختلاف شبلی فراز
اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ دہشتگردی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، دہشتگردی کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، بلوچستان کے لوگوں میں آب آگاہی آچکی ہے، بلوچستان کے نوجوانوں کے کچھ مسائل ہیں، بلوچستان کے اصل سٹیک ہولڈرز سے بات چیت ہونی چاہیے۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کچھ عرصے بعد اس طرح کے معاملات شروع ہوجاتے ہیں، بلوچستان میں مسائل کو سیاسی طور پر حل کرنا ہوگا، بلوچستان میں ایسی کارروائیوں میں ملوث لوگوں کی درست نشاندہی ہونی چاہیے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے، وہاں سے بھی میزائل آئے اور یہاں سے بھی گئے،اس سے معیشت پر فرق پڑتا ہے، ہر واقعہ کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، بلاول بھٹو نے بطور وزیر خارجہ ایک دورہ بھی افغانستان کا نہیں کیا، ہم چاہ کیا رہے ہیں؟ آپ نے ڈپلومیٹک بلیک آؤٹ کیا ہوا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے دہشت گردی کی مذمت کی، وزیر داخلہ نے پریشان کن باتیں کیں، جو بندوق اٹھاتے ہیں اس کا تو فیصلہ کر لیں گے، یہ طے کرنا ہے کون پاکستانی ہے اور کون نہیں ، یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں ، بلوچستان بدل چکا ہے، ہمیں چاہئے کہ بلوچستان کے اصل شراکت داروں کو آن بورڈ لائیں۔
سینیٹر پلوشہ خان
اجلاس کے دوران سینیٹر پلوشہ خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے حکومت میں آنے کے بعد بلوچستان سے تاریخی معافی مانگی تھی جس کے بعد حالات بہت بہتر ہوگئے تھے، بلوچ عوام کے مسائل ہیں ہم سب جانتے ہیں۔
پلوشہ خان کا کہنا تھا کہ اپیکس کمیٹی میں بولنے کا حق ان لوگوں کا ہے جن کا کوئی پیارا اس میں شہید ہوا ہے، ریاست ماں ہے، ریاست پوچھے اور پھر جواب دے، بنگلہ دیش کی بات نا کریں ، مودی کہتا ہے کہ بلوچستان کے لوگ ہم سے رابطے میں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ خان سینیٹ کا اجلاس کوئٹہ میں رکھیں تاکہ ہم سب ادھر جائیں، ہمت کریں ان کے سامنے کھڑے ہو کر بات کریں۔
وزرا کی عدم موجودگی پر اپوزیشن کا تحفظات کا اظہار
قبل ازیں سینیٹ اجلاس کے آغاز پر وقفہ سوالات کے دوران قائد حز ب اختلاف کی جانب سے وفاقی وزرا کی عدم موجودگی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے پریذائیڈنگ آفیسرعرفان صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وزراء کی کرسیاں خالی ہیں، ہم کیا دیواروں سے بات کریں گے؟ کوئی وزیر تو ہو بات سننے کیلئے، اگر اپ سمجھتے ہیں کہ ہم کورم کی نشاندہی کریں گے تو ایسا نہیں ہو گا، ہم کورم کی نشاندہی نہیں کریں گے، ہم یہیں بیٹھیں گے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ وزراء کی نشستیں خالی ہوں تو ایوان کا وقار کم ہوتا ہے، وزراء کمیٹی میں بھی نہیں آتے اورممبران کا نقطہ نظر بھی نہیں سنتے، میں ایوان کے ممبران کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔
بعدازاں سینیٹ اجلاس میں وقفہ سوالات کو مؤخر کردیا گیا، سینیٹ اجلاس کے دوران الیکشن کمیشن کی سال 2023 کی رپورٹ پیش کی گئی جبکہ بچوں کے حقوق سے متعلق قومی کمیشن کی 24-2023 کی رپورٹ بھی پیش کی گئی اور سینیٹ کا اجلاس پیر کی شام 5 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔