لاہور: (مولانا محمد اکرم اعوان) اسلامی مساوات یہ ہے کہ اپنے حق کے حصول میں ساری مخلوق برابر ہے، غریب ہو یا امیر، طاقتور ہو یا کمزور، مرد ہو یا عورت، مساوات اسلامی یہ ہے کہ جس کا جو حق بنتا ہے وہ اس کو مل جائے۔
ہمارے ہاں مساوات کا شور ہے لیکن شور بپا کرنے والوں نے اس معاملے میں تو مساوات نہیں کی کہ جو الاؤنسز اسمبلی کے اراکین کو ملتے ہیں، وہ الاؤنسز اس اسمبلی میں نوکری کرنے والے ملازمین کو بھی ملیں، کیا اس پہ شور کیا جائے گا کہ یہ ظلم ہے یا ناانصافی ہے! اس پر تو کوئی بات نہیں کرتا، آخر وہ سرکاری ملازم جواسمبلی میں ملازمت کرتے ہیں یا وہ پولیس والے جو اسمبلی ہی کی چوکیداری کرتے ہیں، انہیں وہ پیسے کیوں نہیں دیئے جاتے جو ایک ایم این اے، سینیٹر یا صوبائی ممبر کو دیئے جاتے ہیں، انہیں وہ سہولتیں کیوں نہیں دی جاتیں جو ممبران کو دی جاتی ہیں۔
اس ضمن میں آج مساوات کے دعوے دار یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے کام کا صلہ لیتے ہیں اور ہم اپنے کام کا صلہ لیتے ہیں، پھر مساوات تو وہی ہوئی کہ جس کا جو حق بنتا ہے وہ اس کو بلا تکلف مل جائے، یہ مساوات ہے، بحیثیت خاتون جو عزت و احترام اس کا حق ہے، جو مالی معاملات میں اس کا حق ہے، جہاں بھی جو بھی اس کا حق ہے، اس لئے نہ مارا جائے کہ وہ عورت ہے، بول نہیں سکتی۔ بلا تکلف بغیر کسی رکاوٹ کے اس کا حق اس کو پہنچنا چاہیے، اسی طرح مرد کا جو حق بنتا ہے وہ اس کو پہنچنا چاہئے تو یہ مساوات ہے۔
آپ ایک گھر میں مزدور، مستری لگاتے ہیں تو عمومی قاعدہ یہ ہے کہ مستری کی ایک دن کی مزدوری مزدور سے دو گنا ہوتی ہے، یہ آج سے نہیں جب سے ہم دیکھ رہے ہیں ان دونوں کی مزدوری میں مساوات نہیں ہے، کاریگر کا اپنا کام ہے، وہ اپنے کام کی اجرت لیتا ہے اور مزدور اپنے کام کی اجرت لیتا ہے، مساوات یہ ہے کہ نہ مستری کے پیسے مارے جائیں اور نہ مزدور کے مارے جائیں، دونوں کا جو حق بنتا ہے وہ بلا تکلف دونوں کو مل جائے، یہ مساوات ہے اور یہی دنیا میں چل سکتی ہے، جس مساوات کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے، یہ ناقابل عمل ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں عورتوں کے حقوق کی علمبردار وہ عورتیں ہیں جن کے باورچی عموماً مرد ہوتے ہیں، ان کے کپڑے مرد دھوتے ہیں، ان کے کپڑے مرد استری کرتے ہیں، ان کو خریداری کیلئے پیسے مرد دیتے ہیں جن سے یہ بناؤ سنگھار اور زیورات خریدتی ہیں اور پھر عورت کی آزادی کا نعرہ لگاتی ہیں، وہ خواتین جو ہمارے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں وہ تو دن بھر گھر کا کام بھی کرتی ہیں، بچے بھی سنبھالتی ہیں، فصل میں بھی ہمارا ہاتھ بٹاتی ہیں، نہایت عزت و احترام سے رہتی ہیں اور انہیں یہ شکایت بھی نہیں ہوتی کہ ہمیں مساوی حقوق حاصل نہیں۔
یہ شکایت اللہ جل شانہٗ سے دوری، دین سے محرومی اور اخلاق رذیلہ کا سبب بن جاتی ہے، فسادات کی جڑ بن جاتی ہے ورنہ اسلام نے عملی مساوات معین فرما دی ہے، خواتین کا چونکہ یہ شعبہ نہیں ہے، بہت کم خواتین اس وقت کاروبار کرتی تھیں اور آج بھی یہی عالم ہے، اس لئے دو خواتین کو گواہ رکھا جائے تاکہ اگر ایک کو یاد نہ رہے، کوئی بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد کرا دے اور گواہوں کو جب شہادت کیلئے طلب کیا جائے تو گواہی دینے سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔
اصول یہ ہے کہ وہ جب گواہ مقررہوئے ہیں تو جو حق بات ہے، وہ بیان کریں اور ایک بات یاد رکھو! لین دین بار بار کرتے ہو تو بار بار لکھنے سے اکتا مت جانا، کتنی خوبصورت بات ارشاد فرمائی! ہو سکتا ہے دن میں تم دس سودے کرتے ہو تو بار بار لکھو تاکہ کل کوئی غلط فہمی نہ ہو، کسی کا نقصان نہ ہو، کسی فساد کی بنیاد نہ بن جائے، اگر تحریر ہوگی تو جھگڑا نہیں ہوگا، کسی کا حق نہیں مارا جائے گا، اگر کسی نے مال خریدا اور اس کی نقد قیمت دے دی، اسے حاضر مال مل گیا تو کوئی حرج نہیں اگر تم نہیں لکھتے چونکہ آئندہ کوئی مطالبہ باقی نہیں رہا، رقم کا مطالبہ ختم ہو گیا، اسے پوری رقم مل گئی اور مال والے کا مطالبہ ختم ہو گیا‘ اسے مال مل گیا۔
جو نقد لین دین کرتے ہو موقع پر سرمایہ بھی دے دیتے ہو اور مال بھی وصول کر لیتے ہو، اسے ضبط تحریر میں نہ لاؤ تو کوئی حرج نہیں، اسے بھی لکھ لو تو اچھی بات ہے، پھر کبھی بات ہو تو تحریر پاس ہو لیکن جہاں بھی ادھار ہو گا، وہاں تحریر ہونا ضروری ہے اور یہ بھی یاد رکھو! لین دین میں گواہ بھی ضرور رکھا کرو، یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو بعد میں جھگڑوں کو جنم دینے سے روکتی ہیں اور انسان کو امن اور معاشرے کو تقویت پہنچاتی ہیں۔
اور ایک بات یاد رکھو! لکھنے والے کاتب پر یا گواہ پر دباؤ مت ڈالو، بعد میں کوئی ایسا نہ کرے کہ گواہوں کو دھمکی دیتا پھرے کہ گواہی نہ دینا یا کاتب کے پیچھے دوڑے کہ تم نے کیوں لکھا، یہ ناجائز ہے، کسی گواہ کو کسی لکھنے والے کو مرعوب نہ کیا جائے، انہیں ایذا نہ دی جائے۔
اگر ایسا کرو گے تو یہ بہت بڑا گناہ ہو گا، اللہ کی ناراضگی کا سبب ہوگا، اللہ کی عظمت کا خیال کرو، تمہیں خالق کے سامنے جواب دینا ہے، لہٰذا اللہ کی عظمت کو نگاہ میں رکھو اور اللہ تمہیں یہ سارے معاملات اس لئے تعلیم دے رہا ہے کہ اللہ ہر چیز سے آشنا ہے، ہر چیز سے آگاہ ہے، ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔
ان قوانین کو سامنے رکھ کر نگاہ دوڑائیے، ہمارے جتنے جھگڑے ہوتے ہیں ان کی بنیاد انہی اصولوں کی خلاف ورزی پر ہوگی، کہیں تحریر نہیں ہوگی، کہیں گواہ نہیں ہوں گے، کہیں کوئی کوتاہی ہوگی، کہیں کسی نے رقم لے لی ہوگی اور مال ویسا نہیں دیا ہو گا جیسا وعدہ کیا تھا، کوالٹی میں فرق آ گیا ہوگا کہیں مقدار میں فرق آ گیا ہوگا، اسلام نے یہ معاشی نظام اس وقت دیا جس وقت دنیا تہذیب سے بالکل ناآشنا تھی۔
آج دنیا کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ تہذیب کی عظیم بلندیوں کو سر کر چکی ہے لیکن آج بھی اسلام کے زریں اصول اتنے ہی ضروری اور کارآمد ہیں جتنے روز اول تھے اور ان شاء اللہ ہمیشہ کیلئے رہیں گے چونکہ اللہ کی یہ کتاب قیامت تک کے بنی نوع انسان کی رہنمائی کیلئے ہے۔
مولانا محمد اکرم اعوان مفسر قرآن، مذہبی پیشوا اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔