لاہور: (ڈاکٹر فرحت ہاشمی) ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو جمعۃالوداع کہتے ہیں، الوداع کے لغوی معنی رخصت کرنے کے ہیں چونکہ یہ آخری جمعۃ المبارک ماہ صیام کو الوداع کہتا ہے اس لئے اس کو جمعۃ الوداع کہتے ہیں۔
جمعۃ الوداع اسلامی شان و شوکت کا ایک عظیم اجتماع عام ہے، یہ اپنے اندر بے پناہ روحانی نورانی کیفیتیں رکھتا ہے اور یہ جمعہ اس لحاظ سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اب ان ایام گنتی کے وداع ہونے کا وقت قریب آگیا ہے، جس میں مسلمانوں کیلئے عبادات کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
آج اس ماہ منور کا آخری جمعہ ہے جو ہمیں اس ماہ مقدس سے جدا کر رہا ہے، جس نے ہمیں ہر گھڑی اللہ کی عطا کردہ بے شمار رحمتوں، نعمتوں سے ہر لمحہ نوازا، یہ ماہ مقدس ہم سے رخصت ہونے کو ہے، رمضان کے اس جمعہ کا ثواب بھی بہت زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ پورے عالم اسلام کے مسلمان جمعۃ الوداع کو بڑے ذوق عبادت میں پورے اہتمام کے ساتھ ادا کرتے ہیں، ساتھ ساتھ ان کا دل بھی بوجھل اور غمگین بھی ہوتا ہے کہ نہ جانے اگلے سال کس کے مقدر میں پھر یہ مبارک لمحات آئیں گے یا نہیں۔
آج جمعۃ الوداع ہے اور آج کے یوم سعید کو پوری دنیا کے مسلمان قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لئے ’’یوم القدس‘‘ کے طور پر بھی مناتے ہیں اور تجدید عہد کرتے ہیں کہ وہ قبلہ اوّل بیت المقدس یعنی مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لئے ہر ممکن جدوجہد کریں گے، بیت المقدس اس عظیم عمارت کا نام ہے جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام آسمانی مذاہب کیلئے بھی مقدس اور محترم مقام ہے۔
مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کا پہلا قبلہ اوّل ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے، مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن کریم کے پندرھویں پارہ میں آیا ہے، اسی سرزمین میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت بھی ہوئی بہت سے انبیاء کرامؑ یہاں تشریف لائے، اسی وجہ سے اسے انبیاء کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے سال کے سب سے عظیم دن ہم سب مل کر قبلہ اوّل کی آزادی کیلئے خصوصی دعائیں کریں۔
جمعۃ المبارک کی عظمت و رفعت محتاج بیان نہیں جو قدر و منزلت اسے عطا ہوئی ہے کسی اور دن کو وہ نصیب نہیں ہوئی، حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے پیارے نبی پاکﷺ نے فرمایا سب سے بہتر دن جس پر سورج طلوع ہو جمعہ کا دن ہے، اس میں حضرت آدمؑ کی ولادت ہوئی، اسی دن حضرت آدمؑ جنت سے نکالے گئے اور یہی وہ دن ہے جس میں قیامت قائم ہو گی۔
آخرکار الوداعی گھڑیاں آپہنچیں، گنتی کے چند دن اختتام کو پہنچے، ان ایّام میں جو بھی نیکی کا کام ہوا ہو، وہ اللہ کی توفیق سے ہوا ہو، لہٰذا اگر ہم اس ماہ میں کوئی بھی نیکی کر سکے تو اس پر غرور دل میں نہ آنے پائے کیونکہ اللہ کے نیک بندوں کے بارے میں آتا ہے۔ ’’اور جن کا حال یہ ہے کہ وہ (اللہ کی راہ میں) دیتے ہیں جو کچھ بھی دے سکتے ہیں اور(پھر بھی) دل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے (المؤمنون: 60)
محنت اور کوشش کے باوجود اس احساس کے ساتھ کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا، ایسے میں دل سے ایک آواز آتی ہے کہ اے رب! تو ہمارے اعمال کو نہ دیکھ اپنی وسیع رحمت کو دیکھ ۔ تو ہمیں اپنا قرب ہماری عبادت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے کرم کی بدولت عطا کر۔ تو اپنی عبادت کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے۔ ہمیں اخلاص کی دولت سے نواز اور بغیر حساب کے بخش دے کیونکہ توہی واسع المغفرۃ ہے۔
اس رمضان میں جو کچھ ہو سکا وہ صرف تیری خاص عنایت کی وجہ سے تھا اور جو نہ ہو سکا وہ سراسر ہماری اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے تھا، میں اپنا حقیر سرمایہ تیرے سپرد کرتا ہوں، حساب کی کمی بیشی کو تو خوب جانتا ہے۔ یا رب! ہمیں آئندہ تمام زندگی کیلئے صراط مستقیم پر جمائے رکھنا اور کبھی نیکی کے مواقع سے محروم نہ کرنا،آمین۔
اپنا جائزہ لیجیے
کیا یہ رمضان ہمارے اندر تبدیلی لانے کا ذریعہ بنا؟حقوق اللہ میں کیا میں نے:
٭:کوئی روزہ بغیر عذر یا بیماری کے تو نہیں چھوڑا؟
٭:فرض نمازوں کو پابندی کے ساتھ ادا کیا؟
٭:قیام اللیل (نماز تراویح) کا اہتمام کیا؟
٭: تلاوت قرآن پاک اور اس کے معانی پر غور و فکر کیا؟
٭:ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا؟
٭: عام اوقات کے علاوہ خصوصیت سے قبولیت کے اوقات میں دعائیں مانگیں؟
٭:آخری عشرے کی طاق راتوں میں خصوصی عبادات کا اہتمام کیا؟
٭: اللہ کی رضا کی خاطر اپنا مال اللہ کے بندوں پر اور نیکی کے کاموں میں خوشی سے خرچ کیا؟
٭:زیادہ سے زیادہ وقت اللہ کی عبادت میں گزارا؟
حقوق العباد : کیا میں نے :
٭:والدین، بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی؟
٭: اپنے گھر والوں کے آرام کا خیال رکھا؟
٭: دکھی انسانوں کی غم خواری اور ہمدردی کی؟
٭: بیماروں کی تیمارداری کی؟
٭: گھریلو ملازمین کی ذمہ داریوں میں کمی کی یا کاموں میں اُن کا ہاتھ بٹایا؟
٭: جھوٹ، غیبت، بد گمانی، تجسس اور عیب جوئی سے بچنے کی کوشش کی؟
٭:کسی کا دل تو نہیں دکھایا؟ حق تلفی تو نہیں کی؟
٭:مشکلات و مصائب پر صبرو تحمل سے کام لیا؟
٭: سلام میں پہل کی؟ ہر ایک کو مسکرا کر ملے؟
٭:کیا روزے کے مقصد تقویٰ کو پانے میں کامیابی حاصل ہوئی؟
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ جو صرف چند دن کا مہمان رہ گیا ہے سارا ہی عبادت کا مہینہ ہے مگر اس کے آخری عشرے کی عبادات کی خاص فضیلت بیان ہوئی ہے، رمضان کے آخری دس دنوں میں اپنے اہل و عیال کو عبادت کیلئے خصوصی ترغیب دلانا نبی کریمﷺ کی سنت پر عمل کرنا ہے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبیﷺ (عبادت کیلئے) کمر بستہ ہو جاتے، راتوں کو جاگتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی جگاتے(صحیح بخاری:2024)۔
آخری عشرے کی چند راتیں باقی ہیں ان سے جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اٹھا لیں، زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں گزاریں، تراویح، تہجد وغیرہ میں حتی الوسع طویل قیام کریں، کثرت سے تلاوتِ قرآن مجید اور ذکر و اذکار کریں، رات کو خود بھی جاگیں اور گھر والوں کو بھی عبادت کیلئے جگائیں۔
اب تو یہ ماہ رخصت ہو رہا ہے لیکن اگلے سال کیلئے ابھی سے منصوبہ بندی کریں، اللہ کے گھر کی زیارت ہم سب کے دل کی تمنا ہے، حج اور عمرے کیلئے ہر مومن کا دل تڑپتا ہے، رمضان میں جہاں دیگر عبادات کا اجر و ثواب بڑھ جاتا ہے وہاں عمرہ کا ثواب بھی حج کے برابر ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر فرحت ہاشمی مذہبی سکالر اور عالم دین عبدالرحمٰن ہاشمی کی صاحبزادی ہیں، حدیث سائنسز میں ڈاکٹریٹ ہیں۔