لاہور: (محمد اشفاق) جسٹس مس عالیہ نیلم کا بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ایک سال مکمل ہو گیا، اس ایک سال میں چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے وہ تاریخی اقدامات کیے جو لاہور ہائیکورٹ کے قیام کو 150 سال گزرنے کے بعد بھی کوئی نہ کر سکا تھا۔
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس ہیں، جسٹس عالیہ نیلم 12 نومبر 1966 کو پیدا ہوئیں، انہوں نے 1995 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور بعد میں اسی ادارے سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
انہوں نے اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے شریعہ قانون اور ایڈوانسڈ شریعہ قانون میں ڈپلومہ کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس میں بھی ڈپلومہ حاصل کیا، مزید برآں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے بیچلر آف ایجوکیشن کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔
جسٹس عالیہ نیلم نے 1996 میں اپنے قانونی کیریئر کا آغاز کیا، پنجاب بار کونسل میں بطور وکیل انرولمنٹ حاصل کی اور بہت مختصر عرصہ میں آئینی قانون، وائٹ کالر کرائم، دیوانی، فوجداری، انسداد دہشت گردی کے قوانین، نیب، بینکنگ جرائم، خصوصی مرکزی عدالتوں کا قانون اور بینکنگ قوانین سے متعلقہ امور میں اپنے آپ کو ایک مضبوط وکیل کے طور پر منوایا۔
انہوں نے 2008 میں سپریم کورٹ کے وکیل کے طور پر لائسنس حاصل کیا، جسٹس عالیہ نیلم 2013 میں لاہور ہائی کورٹ کی ایڈیشنل جج کے طور پر تعینات ہوئیں، بعدازاں 16 مارچ 2015 کو بطور مستقل جج حلف اٹھایا، جسٹس عالیہ نیلم 203 قابل نظیر فیصلے دے چکی ہیں جن میں متعدد قانونی نکات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
جسٹس عالیہ نیلم نے اوکاڑہ، ننکانہ، گجرات، شیخوپورہ اور راولپنڈی سمیت متعدد اضلاع کیلئے بطور انسپکشن جج بھی فرائض سرانجام دیئے ہیں اور مختلف خصوصی عدالتوں اور ٹربیونلز کیلئے مانیٹرنگ، ایڈمنسٹریٹو جج کے طور پر کام کیا ہے۔
جسٹس عالیہ نیلم صوبہ بھر کی انسداد دہشت گردی عدالتوں کی پہلی خاتون ایڈمنسٹریٹو جج بھی رہیں، اپنے پورے کیریئر کے دوران جسٹس مس عالیہ نیلم صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے پر عز م نظر آئیں۔
جسٹس عالیہ نیلم نے امریکا، فلپائن، ارجنٹائن، نیوزی لینڈ میں منعقدہ مختلف بین الاقوامی کانفرنسوں میں بھی شرکت کی اور اپنے علم اور مہارت کی بنیاد پر پاکستانی عدلیہ کی بھرپور نمائندگی کی، جسٹس عالیہ نیلم نے صوبہ پنجاب میں ای کورٹس میں ٹرائل کے دوران شواہد اور بیانات ریکارڈ کرنے کیلئے سٹینڈنگ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پیز) کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا، ای کورٹس کے ذریعے شواہد ریکارڈکرنے کا عمل پورے پنجاب میں نافذ کردیا گیا ہے جس کی بدولت مقدمات کی کارروائی کی کارکردگی اور شفافیت میں اضافہ ہو گا۔
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کو چیلنجز
11 جولائی 2024 کو چیف جسٹس مس عالیہ نیلم حلف اٹھا کر لاہور ہائیکورٹ پہنچیں تو ان کے سامنے چیلنجز کے بھرمار تھے جن میں سے اگر چیدہ چیدہ چیلنجز کو دیکھا جائے تو سب سے بڑا چیلنج پنجاب میں تقریباً مجموعی طور پر چھوٹی اور بڑی عدالتوں میں زیر سماعت 16 لاکھ سے زائد کیسز کو نمٹانا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ 4 سال سے لاہور ہائیکورٹ میں ججز کی خالی آسامیاں جن کو پر کرنے کے لیے موثر اقدامات نہ ہونے پر زیر التوا کیسز کی تعداد بڑھ رہی تھی جبکہ پنجاب کی ماتحت عدلیہ سائلین کے ساتھ ساتھ ججز کو سہولیات دینا اور وکلا کی فلاح کے لیے عرصہ دراز سے رکے ہوئے منصوبوں پر عمل نہ ہونا تھا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم کے بطور چیف جسٹس دور کو عدالتی اصلاحات کا دور کہا جانے لگا ہے کیوں کہ اس ایک سالہ دور میں زیر التوا کیسز میں کمی، ججز کی خالی آسامیوں کو پر کرنا، ڈیجیٹلائزیشن، کیس مینجمنٹ سسٹم، ججز کے ہیلتھ الاؤنس، ماتحت عدلیہ میں اہم سنگ میل عبور کیے گئے۔
زیر التوا کیسز میں ریکارڈ کمی
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کی پالیسیوں سے تاریخ میں پہلی بار زیر التوا کیسز میں بڑی تعداد میں کمی آئی جس کے باعث لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا کیسز کی تعداد ایک لاکھ 87 ہزار 938رہ گئی، گزشتہ ایک برس میں 1 لاکھ 53ہزار 44 کیسز نمٹائے گئے۔
اعداد و شمار کے مطابق پرنسپل سیٹ پر 82236 کیسز نمٹائے گئے ہیں، بہاولپور بنچ میں 18411، ملتان بنچ پر 35 ہزار 910 کیسز نمٹائے گئے ہیں۔
ایک برس کے دوران راولپنڈی بنچ میں 16 ہزار 487 کیسز نمٹائے گئے، اسی طرح سے پنجاب کی ماتحت عدالتوں میں تقریباً 2لاکھ 19ہزار سے زائد کیسز نمٹائے گئے جبکہ پرانے کیسز کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹایا جا رہا ہے۔
پنجاب میں تمام مقدمات کے چالان عدالتوں میں جمع
چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم نے عدالتوں میں پولیس کی جانب سے چالان بروقت جمع نہ کروانے پر سخت نوٹس لیتے ہوئے گزشتہ دس سال کا ریکارڈ طلب کیا تو ریکارڈ سے پتہ چلا کہ گزشتہ دس سالوں میں پنجاب میں 50 لاکھ سے زائد مقدمات درج کیے گئے جس میں سے 45 لاکھ 30 ہزار مقدمات کے چالان عدالتوں میں جمع ہو چکے ہیں جب کہ 4 لاکھ 70 ہزار مقدمات کے چالان عدالت میں جمع نہیں ہو سکے یعنی ان مقدمات پر کارروائی آگے نہیں بڑھ سکی، اس کی بنیادی وجہ پولیس کے تفتیش کا نظام ناقص جبکہ پراسیکیوشن کی جانب سے ذمہ داریاں پوری نہیں کی جارہی تھیں اور سائلین خوار ہو رہے تھے اور یہی وہ وجہ تھی جس کے باعث مقدمات کے فیصلے تاخیر کا شکار تھے جس پر چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ تمام مقدمات کے چالان 15 روز میں متعلقہ عدالتوں میں جمع ہونے چاہئیں جس کے بعد اب پنجاب میں ایسا کوئی مقدمہ نہیں موجود جس کا چالان عدالت میں موجود نہ ہو۔
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کا تاریخی پراجیکٹ
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے ایف آئی آر درج ہونے سے لیکر مقدمے کے فیصلے تک تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر لانے کا فیصلہ کیا اور تاریخ میں پہلی بار ایف آئی آر سے مقدمے کے فیصلے تک تمام ریکارڈ ون لنک پر فراہم کرنے کے پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز کر دیا گیا۔
منصوبے کے تحت پی آئی ٹی بی کے تعاون سے ماتحت عدلیہ، پولیس سٹیشن، پراسیکیوشن اور جیلوں کے سسٹم کو اکٹھا کیا گیا ہے، منصوبے کا مقصد مقدمات میں غیر ضروری تاخیر، درست اور بروقت معلومات کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ تفتیشی نظام کو بہتر بنایا گیا ہے جس کے بعد ایف آئی آر درج ہونے کے بعد پولیس آفیسر، متعلقہ پراسیکیوٹر اور جج آن لائن چیک کر سکیں گے کہ ایف آئی آر کا موجودہ سٹیٹس کیا ہے اور کس ڈیپارٹمنٹ کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے۔
ججز کی ویلفیئر کے لیے اقدامات، لیپ ٹاپ اور گاڑیاں تقسیم
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے ججز کی ویلفیئر کے لیے بھی تاریخی اقدامات کیے، ایک سالہ دور میں ججز کے ہیلتھ الاؤنس کے لیے 314.7 ملین روپے مختص کیے گئے اور ہیلتھ انشورنس کارڈ جاری کیے گئے جس کے تحت ججز اور ان کے فیملی ممبران کو صحت کی معیاری سہولیات فراہم کی گئیں۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے پنجاب کی ماتحت عدلیہ کے ججز کو بہتر سہولیات دینے کے حوالے سے بھی اقدامات کیے، پنجاب کے ماتحت عدلیہ کے ججز کے لیے ذاتی گاڑیاں اور لیپ ٹاپ کی منظوری دی گئی، اس سکیم کے تحت 32 گاڑیاں اور 93 لیپ ٹاپ خریدے گئے جس پر ماتحت عدلیہ کے ججز نے چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔
عدالتی امور کی ڈیجیٹلائزیشن
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے موجودہ دور کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے عدالتی امور کی ڈیجیٹلائزیشن کے لیے بھی تاریخی کام کیے، تاریخ میں پہلی بار کیس کی کارروائی کا سٹیٹس جاننے کے لیے لائیو سٹیٹس کا پروجیکٹ لانچ کیا گیا، اس پروجیکٹ کے تحت سائلین اور وکلاء کو ہر عدالت سے کیس سے متعلق لائیو سٹیٹس معلوم ہو سکتا ہے، پروجیکٹ کے تحت وکلاء اور سائلین کو معلوم ہو سکے گا کہ کونسی عدالت کام کر رہی ہے جس سے غیر ضروری التوا ختم ہو گا۔
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے ادارے میں ڈسپلن کو برقرار رکھنے کے لیے عدالتی سٹاف کی موبائل کے ذریعے لوکیشن بیسڈ حاضری کا نظام متعارف کرایا، تمام عدالتی افسران اور ملازمین ڈیوٹی ٹائم پر پہنچنے کے بعد اپنے موبائل سے حاضری لگا سکتے ہیں، اس سے پہلے ایچ آر ونگ کو حاضریوں کے نظام کا بوجھ اٹھانا پڑتا تھا جبکہ عدالتی سٹاف کی اہلیت بڑھانے کے حوالے سے مختلف ٹریننگز کا اہتمام کیا گیا، ان ٹریننگز کے ذریعے ڈیٹا انٹری آپریٹر اور ڈیٹا انٹری سے متعلق معلومات فراہم کی گئیں۔
تاریخی اصلاحات
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کے حکم پر فل کورٹ کے فیصلے کے تحت سول مقدمں میں صاف پیپر بک کی تیاری کےلیے سکیننگ سیل قائم کیا گیا، اس منصوبے کا مقصد عدالتوں میں انفراسٹرکچر کی بہتری اور عدالتی سروسز کی کوالٹی کو بہتر کرنا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کی 150 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ لاہور ہائیکورٹ کے انتظامی امور بہتر بنانے کے لیے ہائیکورٹ رولز میں متعدد ترامیم کی گئیں، عدالتی امور بہتر بنانے کے لیے جوڈیشل برانچز کی انسپکشن کا حکم دیا گیا، کیس مینجمنٹ سسٹم کو بہتر کرنے کے لیے چیف جسٹس کی ہدایت پر ڈائریکٹوریٹ آف جوڈیشری نے جوڈیشل برانچز میں ہزاروں کیس فائلوں کا آڈٹ کیا جس کا مقصد زیر التوا کیسز اور نمٹائے گئے کیسز کا درست جائزہ لینا تھا۔
لاہورہائیکورٹ کے فیصلوں کی تصدیق شدہ کاپی کی بروقت فراہمی کے لیے کاپی برانچ میں ٹریکنگ سسٹم متعارف کرایا گیا، اس پروجیکٹ کا مقصد وکلاء اور سائلین کو فیصلوں کی کاپیز بروقت فراہم کرنا ہے، اس سے پہلے مینوئل طریقے سے پراسس کیا جاتا تھا جس سے وکلاء اور سائلین کو شکایات رہتی تھیں۔
کلر کوڈ سکیم
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کے حکم پر جوڈیشل پراسس کو بہتر کرنے کےلیے کلر کوڈ کاز لسٹ متعارف کرائی گئی، کلر کوڈ کاز لسٹ میں پیلی، سبز گلابی کازلسٹ متعارف کرائی گئی، فائل ٹریک سسٹم کے تحت کیو آر کوڈ متعارف کرایا گیا ہے، ہر عدالتی فائل کے اوپر الگ الگ کیو آر کوڈ ہو گا، کیو آر کوڈ کو سکین کرنے سے فائل کی لوکیشن اور سٹیٹس معلوم ہو سکے گا، چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے ریکارڈ کو ڈیجیٹلائزیشن کرنے کا منصوبہ شروع کیا ایک سال میں 3.6 ملین کیس فائلوں کا ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ کیا گیا ہے۔
ریسرچ سنٹر
ججز کی ٹریننگ کے لیے ریسرچ سینٹر کا قیام بھی سنگ میل ثابت ہوا، رواں برس ریسرچ سینٹر نے متعدد قانونی نقاط پر ریسرچ کی جبکہ زیر التوا مقدمات کو کم کرنے کے لیے چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے مصالحتی سینٹر کے منصوبے کو پروموٹ کیا اور مصالحتی عدالتوں کو مکمل طور پر فعال کرکے ججز کی تقرری کی گئی جس کے نتیجے میں زیر التوا مقدمات میں کمی آرہی ہے۔
ٹرانسفر پوسٹنگ پر سفارشی کلچر کا خاتمہ
پنجاب کی ماتحت عدلیہ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، سینئر سول ججز اور سول ججز کی ٹرانسفر پوسٹنگ کے لیے سفارش کروانے والے ججز کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا اور واضح کیا گیا جس جج کو کوئی بھی مسئلہ ہو براہ راست اپنی ٹرانسفر کے لیے رجسٹرار آفس کو طے کردہ طریقے کے مطابق آگاہ کرے، جس کی وجہ سے میرٹ پر شفاف طریقے سے ججز کی ٹرانسفر پوسٹنگ کی گئی۔
ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں ڈسپلن
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کے حکم پر ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں ڈسپلن اور معیار کو بہتر کے لیے شکایت سسٹم متعارف کرایا گیا ہے، مختلف کیٹیگریز میں 3 ہزار 465 شکایت موصول ہوئیں، 3176 شکایت کو نمٹایا گیا جبکہ 289 تاحال زیر التوا ہیں اور سائلین یا کسی بھی شہری کو ماتحت عدلیہ کے جج سے متعلق کوئی شکایات ہوں تو وہ تحریری طور پر آگاہ کر سکتا ہے، اس اقدام سے ماتحت عدلیہ میں انصاف کی فراہمی کے معیار کو بہتر بنایا گیا ہے۔
وکلا کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم نے وکلا برادری کی فلاح و بہبود کے لیے بہترین اقدامات کیے، اس سلسلے میں وکلا تنظیموں نے وفود کی صورت چیف جسٹس سے ملاقات کی اور مسائل سے آگاہ کیا جس پر چیف جسٹس نے وکلا کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا۔
چیف جسٹس کے حکم پر موبائل اپلیکشن میں توسیع کی گئی، اس منصوبے کے تحت پرنسپل سیٹ پر موجود وکلاء کےلیے کیس کی معلومات کے سیکشن کا اضافہ کیا گیا، لاہور ہائیکورٹ کے جاب پورٹل میں غیر ضروری خانوں کو ختم کیا گیا، جاب پورٹل کے ذریعے صرف مطلوبہ تعلیمی کے اہل امیدوار ہی اپلائی کرسکیں گے۔
اس سے پہلے اگر کسی امیدوار کی تعیلمی قابلیت مطلوبہ معیار کے مطابق نہ بھی ہو تو وہ اپلائی کرسکتا تھا جبکہ کیسز کی کیٹیگری کے ٹیگ سسٹم، سٹے کی کیٹیگری کا خانہ متعارف کرایا گیا، اس سسٹم کے تحت تمام کیسز کی مرحلہ وار کیٹیگری کے ساتھ معلومات فراہم ہو سکیں گی، اس کا اصل مقصد سٹے کیس کی معلومات حاصل کرنا ہے۔
ماتحت عدلیہ کے اور جوڈیشل افسران کی بہتری کیلئے اقدامات
لاہور ہائیکورٹ کے ججز، ماتحت عدلیہ اور جوڈیشل افسران سمیت سٹاف کے سروس کارڈ کو اپگریڈ کیا گیا، موجودہ سروس کارڈ میں ایمرجنسی نمبر اور کیو آر کوڈ کی سہولت فراہم کی گئی۔
لاہور ہائیکورٹ کے ملازمین کے رشتہ داروں کی معلومات سے متعلق نظام متعارف کرایا گیا، اس کے تحت ہر ملازم کے ادارے میں کام کرنے والے رشتے دار سے متعلق تمام تفصیلات حاصل ہو سکیں گی۔
ججز، وکلا اور سائلین کے لیے صاف پانی
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کی خصوصی ہدایات پر عدالتوں میں صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے صوبے بھر کی عدالتوں میں 46 واٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے گئے ہیں تاکہ ججز کے ساتھ ساتھ وکلا اور سائلین پینے کے صاف پانی سے مستفید ہوسکیں۔
وکلا اور ماہرین کا خراج تحسین
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم کے اقدامات سے لاہور ہائیکورٹ میں شفافیت کا نظام مضبوط ہوا، ججز کی تقرری میرٹ پر اور شفاف طریقے سے کی گئی، چیف جسٹس کے اقدامات سے سائلین کو بروقت انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جارہا ہے، چیف جسٹس نے مصالحتی نظام کو مکمل طور پر فعال کیا جو خوش آئند ہے۔
سینئر قانون دان احسن بھون نے کہا ہے کہ جسٹس مس عالیہ نیلم کے بطور چیف جسٹس ایک تاریخی دور ہے جس میں شفافیت ہے، میرٹ ہے سفارشی کلچر کا خاتمہ کیا گیا، سائلین کو بروقت انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات نظر آئے جنہیں پوری وکلا برادری قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ ایک سالہ دور میں جو اصلاحات ہوئیں وہ تاریخی میں کبھی نہیں ہو سکیں، چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کے ویژن کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کے پاس پنجاب کی پہلی خاتون چیف جسٹس ہونے کا اعزاز تو حاصل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ادارے میں تاریخی اصلاحات کا اعزاز بھی چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کے پاس ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ 4 لاکھ سے زائد مقدمات کے چالان عدالتوں میں جمع نہیں ہو سکے تھے جو چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کی کاوش سے اب ختم ہو چکے ہیں، اب ایک بھی ایسا مقدمہ نہیں جس کا چالان پینڈنگ ہو۔
وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل عرفان صادق تارڑ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کی سائلین کو بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ وکلا کی فلاح کے لیے تاریخی اقدامات پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں، چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کے ایک سال دور میں جتنے اقدامات ہوئے یہ لاہور ہائیکورٹ کی 150 سالہ تاریخ میں نہیں ہو سکے، وکلا برادری چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔