لاہور ہائیکورٹ: مقدمہ ایف آئی اے کو منتقل ہونے پر پولیس کی ایف آئی آر خارج

Published On 19 July,2025 12:48 pm

لاہور: (محمد اشفاق) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے پولیس کی زیر حراست ملزم پر تشدد یا جاں بحق ہونے کا مقدمہ ٹرائل شروع ہونے سے قبل ایف آئی اے کو ٹرانسفر کرنے پر پولیس کی درج کی گئی ایف آئی آر کینسل کرنے کا حکم دیدیا۔

پولیس کے زیر حراست ملزمان پر تشدد اور قتل کے مقدمے کی تفتیش کون کرے گا؟ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے قانونی نکتہ طے کر دیا، جسٹس طارق سلیم شیخ نے کانسٹیبل محمد آفتاب کی درخواست ضمانت پر 29 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کر دیا۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے قرار دیا کہ اگر زیر حراست ملزم پر تشدد یا زیادتی کا مقدمہ پولیس نے درج کیا اور بعد ازاں ایف آئی اے کو ٹرانسفر کر دیا تو پولیس اس ایف آئی آر کو کینسل کر سکتی ہے، کیس ٹرانسفر ہونے پر ایف آئی اے ایک نئی ایف آئی آر درج کرے گی، حکومت نے کسٹوڈیل اینڈ ڈیتھ ٹارچر ایکٹ کے حوالے سے آگاہی اور سرکاری اہلکاروں کی ٹریننگ کے اقدامات نہیں کئے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے فیصلے میں لکھا کہ چیف سیکریٹری پنجاب سمیت دیگر کسٹوڈیل اینڈ ڈیتھ ٹارچر ایکٹ پر عملدرآمد کیلئے فوری اقدامات کریں، اگر مقدمے کا ٹرائل شروع ہو چکا ہے تو پولیس کی درج ایف آئی آر کینسل نہیں کی جا سکتی اور ایف آئی اے کو نئی ایف آئی آر درج کرنے کی ضرورت نہیں، پولیس کی جانب سے کسٹوڈیل اینڈ ڈیتھ ٹارچر ایکٹ کے کیس کی ایف آئی آر درج کرنا ٹرائل کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے مزید کہا کہ اگر چالان جمع ہونے سے قبل کیس ایف آئی اے کو ٹرانسفر ہوا تو ایف آئی اے تمام مواد حاصل کرنے کے بعد اپنی علیحدہ رپورٹ بنائے گی، اگر پولیس نے چالان جمع کروا دیا ہے تو ایف آئی اے عدالت میں ایک ضمنی رپورٹ جمع کروائے گا۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے زیر حراست ملزم پر تشدد کے مقدمے میں گرفتار پولیس اہلکار کی ضمانت منظور کر لی، فیصلے میں لکھا کہ عدالت کے سامنے اس کیس میں تین بنیادی سوالات تھے، پہلا سوال یہ کہ ٹارچر اینڈ کسٹوڈیل ایکٹ 2022 کے کونسے جرائم کی تفتیش ہوسکتی ہے؟ دوسرا سوال یہ بنتا ہے کہ ٹارچر اینڈ کسٹوڈیل ڈیتھ ایک کی موجودگی میں زیر حراست ڈیتھ کا مقدمہ اگر پی پی سی کے قوانین کے تحت پولیس درج کرے تو ایف آئی اے کو ٹرانسفر کرنے کا کیا طریقہ کار ہے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر تفتیش ایف آئی اے کو منتقل ہو جاتی ہے تو پھر پولیس نے جو تفتیش کی تھی اسکا کیا ہو گا؟ ان انتہائی اہم سوالات کے باعث عدالت نے اٹارنی جنرل ،ایڈووکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کو طلب کیا، جبکہ بیرسٹر حیدر رسول مرزا اور قرۃ العین افضل ایڈووکیٹ کو عدالتی معاون مقرر کیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے مطابق ایسے کیسز میں ایف آئی اے ہیومن رائٹس کمیشن کی نگرانی میں تفتیش کرے گا، سرکاری اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر انکوائری کے بعد درج کی جانی چاہئے، قانوناً سرکاری اہلکاروں کے خلاف مجرمانہ کارروائی سے قبل متعقلہ اتھارٹی کی اجازت ضروری ہے، شاید پولیس رولز کے ذریعے پولیس سے ایف آئی اے کو کیس ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے، ٹرانسفر سے قبل پولیس کی جانب سے اکٹھا کیا گیا ثبوت ٹرائل میں پیش کیا جا سکتا ہے، غلط طریقے سے درج کی گئی ایف آئی آر تفتیش اور ٹرائل کو متاثر نہیں کرتی، وکیل وفاقی حکومت کے مطابق ایف آئی اے کو سرکاری اہلکاروں کے خلاف تفتیش سے قبل ایک تصدیق کرنی چاہئے۔

فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا کہ عدالتی معاون حیدر رسول مرزا نے کہا کہ ایسے کیسز میں تاخیر اور ادارے کی سطح پر فلٹرنگ کے باعث ثبوت ضائع ہو جاتے ہیں، مقامی پولیس کی جانب سے درج کیا گیا کیس تین طریقوں سے ایف آئی اے کو ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے، آئی جی پولیس ایسے کیسز کو ٹرانسفر کرنے کا میکنزم بنا سکتے ہیں، ایف آئی اے خود سے ایسے کیسز کا دائرہ اختیار حاصل کر سکتی ہے، مجسٹریٹ زیر حراست ملزم پر تشدد، قتل اور زیادتی کے حوالے سے ایف آئی اے کو ہدایت جاری کر سکتا ہے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے فیصلے میں لکھا کہ عدالتی معاون قرۃ العین افضل کے مطابق ایف آئی آر کے بغیر بھی ایف آئی اے تفتیش شروع کر سکتا ہے، ایف آئی اے تفتیش مکمل کرنے کے بعد رپورٹ عدالت میں جمع کروا سکتا ہے، عدالت رپورٹ کی بنا پر ملزم کو طلب کر کے مقدمہ شروع کر سکتی ہے، موجودہ کیس میں یہ بات واضح ہے کہ ایف آئی آر غلط طریقے سے درج کی گئی مگر مقدمے کا ٹرائل جاری ہے، ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی کہ ملزم پولیس اہلکار کو کسی تعصب یا غیر قانونیت کا سامنا ہو۔

فیصلے میں کہا گیا کہ پولیس اہلکار کا یہ دعوی غلط ہے کہ تفتیش اور ٹرائل قانونی طریقے سے نہیں چل رہا، یہ بات واضح ہے کہ پراسیکیوشن کے گواہان نے پولیس اہلکار پر محض الزامات لگائے ہیں ایسا کوئی الزام نہیں ہے کہ پولیس اہلکار نے ذاتی طور پر شہروز حیدر پر تشدد کیا، عدالت پولیس اہلکار آفتاب محمود کی ضمانت دو لاکھ روپے کے مچلکے کے عوض منظور کرتی ہے۔

واضح رہے کہ ملزم محمد آفتاب پر دیگر اہلکاروں کے ہمراہ زیر حراست ملزم پر تشدد کرنے کا مقدمہ درج تھا، ملزم پر گجرات کے تھانہ لاری اڈا میں 2025 میں مقدمہ درج کیا گیا، ملزم کے وکیل کے مطابق ٹارچر اینڈ کسٹوڈیل ایکٹ کے تحت صرف ایف آئی اے کو تحقیقات کا اختیار ہے، ملزم کے وکیل کے مطابق زیر حراست تشدد کا مقدمہ درج کرنا پولیس کا اختیار نہیں ہے، پولیس نے مقدمہ درج کرتے وقت قانونی لوازمات پورے نہیں کئے۔