اسلام آباد: (دنیا نیوز) پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا اہم دور ترکیہ میں شروع ہو گیا جس میں دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اور قابل تصدیق مانیٹرنگ میکنزم کے قیام پر بات چیت ہوگی۔
حکام کے مطابق مذاکرات میں دہشت گردی کے خلاف ٹھوس میکنزم پر بات ہوگی، پاکستان کا یک نکاتی ایجنڈا افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔
افغان طالبان کا وفد نائب وزیر داخلہ حاجی نجیب کی قیادت میں موجود ہے جبکہ پاکستان کے وفد میں دفتر خارجہ حکام کے ساتھ سکیورٹی حکام بھی شامل ہیں۔
قبل ازیں ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی اور افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے استنبول میں ہونے والے مذاکرات کی تصدیق کی، مذاکرات کا مقصد افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشتگردی اور پاکستانی زندگیوں کے مزید ضیاع کو روکنا ہے۔
اجلاس میں دہشتگردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک واضح اور قابلِ تصدیق نگرانی کا طریقہ کار وضع کرنے پر بات چیت ہوگی، پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک ٹھوس اور قابلِ تصدیق طریقہ کار کے قیام کی حمایت کرتا ہے۔
دوسری جانب ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے لیے نائب وزیرِ داخلہ حاجی نجیب کی قیادت میں افغان وفد ترکی گیا۔
واضح رہے کہ چھ روز قبل پاکستان اور طالبان وفود کے درمیان دوحہ میں مذاکرات کا پہلا دور مکمل ہوا تھا، پاکستانی وفد کی قیادت وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی تھی ، جب کہ مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک بھی وفد میں شامل تھے جب کہ افغان وفد کی سربراہی عبوری وزیر دفاع ملا یعقوب نے کی تھی اور ان کے ساتھ افغان انٹیلی جنس چیف مولوی عبدالحق تھے۔
قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں مذاکرات کے پہلے دور میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی ہوئی تھی اور دونوں ممالک نے دہشت گردی کے خاتمے پر اتفاق کیا تھا۔
یاد رہے کہ ترجمان دفترِ خارجہ طاہر اندرابی نے اپنی پہلی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اس وقت بند ہے اور سکیورٹی صورتحال کے جائزے تک بند ہی رہے گی، اس ہفتے کے اوائل میں دوحہ میں طے پانے والی جنگ بندی نے بڑے پیمانے پر اپنے آپ کو برقرار رکھا ہے۔
طاہر اندرابی نے کہا گزشتہ دو تین دنوں میں پاکستان میں افغان سرزمین سے کوئی بڑا دہشت گردانہ حملہ نہیں ہوا ہے لہٰذا درحقیقت دوحہ مذاکرات نتیجہ خیز رہے ہیں، ہم چاہیں گے کہ یہ رجحان استنبول اور بعد از استنبول مذاکرات بھی جاری رہے، افغان فریق سے پاکستان کی اہم توقع بدستور برقرار ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہئے۔



