پشاور: (دنیا نیوز) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ ہماری کوشش امن کیلئے ہے، دہشتگردی کے خاتمے کیلئے بند کمروں سے نکل کر سیاستدانوں کے ساتھ مل کر فیصلے کرنا ہوں گے۔
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے صوبے میں حالیہ دہشت گردی میں اضافے کے پیشِ نظر امن و امان کی صورتحال پر غور کرنے کیلئے صوبائی اسمبلی میں سپیکر بابر سلیم سواتی کی زیر صدارت امن جرگے کا انعقاد کیا گیا ہے۔
جرگے کے انعقاد کا مقصد صوبے میں امن بحالی اور عسکریت پسندی کے خاتمے کی حکمتِ عملیوں پر غور کرنا ہے۔
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی صوبائی حکومت کی دعوت پر تقریب میں شریک ہیں، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعتِ اسلامی (جے آئی) کے رہنما بھی اس جرگہ میں موجود ہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ (ن) کے عباد اللہ خان بھی اس اجلاس میں شریک ہیں۔

خیبر پختونخوا اسمبلی میں امن جرگے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش امن کیلئے ہے، دہشتگردی کے ناسور کے خلاف آج کے جرگے میں پائیدار حل نکلے گا، امن تب قائم ہوگا جب دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بند کمروں سے نکل کر سیاستدانوں کے ساتھ مل کر فیصلے کرنے ہوں گے اور دہشتگردی کے خلاف طویل المدتی پالیسی اپنانی ہوگی، سب نے قربانیاں دی ہیں، این ایف سی شیئر 400 ارب روپے بنتے ہیں ہمیں نہیں مل رہے ہیں، اگر ایک فیصد دہشتگردی کے باعث ملتا ہے تو کسی کو اس بارے پوچھنے کا حق نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاست ہر ایک کی اپنی اپنی ہے لیکن امن ہمارا مشترکہ ہے، جب بم پھٹتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ مرنے والا پی ٹی آئی کا ہے یا پیپلز پارٹی کا، یہاں بیٹھے ہر فرد نے قربانی دی ہے، دہشت گردی کیخلاف عوام، سیاستدان اور سکیورٹی فورسز سب نے قربانیاں دی ہیں، سب نے قربانیاں دی تو 2018 میں امن قائم ہوا تھا، ابھی ایک دفعہ پھر دہشتگردی سر اٹھا رہی ہے۔
سہیل آفریدی نے کہا کہ پاک افغان مذاکرات کو ہم نے خوش آئند قرار دیا ہے، ہماری کوشش امن کیلئے ہے، جنگ آخری آپشن ہونا چاہیے۔
وزیر اعلیٰ کے پی کا کہنا تھا ہم بار بار امن کی بات کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگوں کو بُرا لگتا ہے، دہشتگردی کے خاتمے کیلئے بند کمروں کے فیصلے ہم پر مسلط ہوتے آئے ہیں، ان فیصلوں سے ابھی تک دہشتگردی ختم نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا سیاستدانوں، سکیورٹی فورسز اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو ساتھ بیٹھا کر پالیسی بنائی جائے، اگر پھر اس پالیسی پر عملدرآمد ہوگا تو کوئی حل نکلے گا، وہ پالیسی پھر تمام لوگوں کو قابل قبول ہوگی اور خیبر پختونخوا سے دہشتگردی کا ناسور مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔



