نیویارک: (ویب ڈیسک) پاکستان، امریکا اور متعدد عرب اور مسلم اکثریتی ممالک نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کی توثیق کرنے والی امریکی قرارداد کو جلد از جلد منظور کرے۔
عرب اسلامی ملکوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ پاکستان، سعودی عرب امریکا، قطر، مصر، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، اردن اور ترکی اس وقت زیر غور سلامتی کونسل کی قرارداد کے لیے اپنی مشترکہ حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔
ان ملکوں کا کہنا ہے کہ وہ قرارداد کی فوری منظوری چاہتے ہیں، گزشتہ ہفتے امریکا نے 15 رکنی سلامتی کونسل میں باضابطہ طور پر ایسے مسودے پر مذاکرات شروع کیے جو دو سال تک جاری رہنے والی اسرائیلی جارحیت کے بعد ہونے والی جنگ بندی کے بعد کے اقدامات سے متعلق ہے اور ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی توثیق کرے گا۔
عرب اور مسلمان ملکوں کا کہنا ہے کہ ہم زور دیتے ہیں کہ یہ ایک مخلصانہ کوشش ہے اور یہ منصوبہ نہ صرف اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان بلکہ پورے خطے کے لیے امن اور استحکام کی جانب ایک قابل عمل راستہ فراہم کرتا ہے۔
قرارداد کے ایک مسودے میں لکھا ہے کہ وہ بورڈ آف پیس کے قیام کا خیر مقدم کرتا ہے، جو غزہ کے لیے ایک عبوری انتظامی ادارہ ہو گا اور جس کی اصولی طور پر سربراہی ٹرمپ کریں گے اور اس کا مینڈیٹ 2027 کے اختتام تک رہے گا۔
قرارداد رکن ممالک کو اختیار دے گی کہ وہ عبوری عالمی استحکام فورس (اتشکیل دیں جو اسرائیل، مصر اور نئی تربیت یافتہ فلسطینی پولیس کے ساتھ مل کر سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانے میں مدد دے اور غزہ کی پٹی کو غیرفوجی بنائے، سابقہ مسودوں کے برعکس تازہ ترین مسودے میں مستقبل میں ممکنہ فلسطینی ریاست کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ مشترکہ بیان اس وقت سامنے آیا جب روس نے کونسل کے ارکان کو ایک متبادل مسودہ قرارداد پیش کیا جو متن کے مطابق نہ تو غزہ میں بورڈ آف پیس کے قیام کی سہولت دیتا ہے اور نہ ہی کسی بین الاقوامی فورس کی فوری تعیناتی کی بات کرتا ہے۔
اس مسودے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ امن منصوبے کی شقوں پر عمل درآمد کے لیے ممکنہ راستوں کی نشاندہی کریں اور جلد ایک ایسی رپورٹ پیش کریں جو اسرائیلی جارحیت سے تباہ حال غزہ میں کسی بین الاقوامی استحکام فورس کی تعیناتی کے امکانات کو بھی بیان کرے۔
اب تک یوں محسوس ہوتا رہا ہے کہ کونسل کے ارکان امن منصوبے کے بنیادی اصولوں کی حمایت کرتے ہیں، لیکن سفارتی ذرائع نے اشارہ دیا کہ امریکی مسودے کے بارے میں متعدد سوالات موجود ہیں جو خاص طور پر کونسل کی جانب سے نگرانی کے کسی طریقہ کار کی عدم موجودگی، فلسطینی اتھارٹی کے کردار اور آئی ایس ایف کے مینڈیٹ کی تفصیلات کے حوالے سے ہیں۔



