کوالالمپور: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں انناس کے تنے عام طور پر کسی کام کے نہیں ہوتے اور اُنہیں ضائع کر دیا جاتا ہے لیکن ملائیشیا کے محققین نے تنوں میں پائے جانے والے فائبر کو تبدیل کر کے ایسا مواد تیار کرنے کا طریقہ دریافت کر لیا ہے جس کا استعمال بغیر پائلٹ طیاروں یا ڈرون کے فریمز بنانے کے لیے کیا جاسکتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ملائیشیا کی پترا یونیورسٹی میں پروفیسر محمد طارق حمید سلطان کی سربراہی میں اس انوکھے منصوبے پر کام جاری ہے۔
پروجیکٹ کے ذریعے کوالالمپور سے 65 کلو میٹر دور واقع ایک علاقے ہولو لنگٹ کے کسانوں کی جانب سے ضائع کردہ انناس کے تنوں اور دیگر باقیات کو کارگر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔
پروفیسر محمد طارق نے ورکشاپ کے دوران رائٹرز کو بتایا کہ وہ انناس کے تنوں کو ایک فائبر میں تبدیل کر رہے ہیں جو ایرو اسپیس ایپلی کیشن کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور جس سے بنیادی طور پر ڈرون بھی بنایا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مگر مچھوں سے بچنے کیلئے درخت پر کئی دن گزارنے والا ’مجرم‘ گرفتار
ان کا مزید کہنا تھا کہ بائیو کمپوزٹ میٹیریل یا مرکب مادے سے تیار کردہ ڈرون کا وزن نہ صرف مصنوعی فائبر سے بنے ڈرون کے مقابلے میں کم ہو گا بلکہ یہ سستا بھی ہوگا اور اسے آسانی سے ضائع بھی کیا جاسکے گا جب کہ ڈورن کی تباہی کی صورت میں اس کے فریم کو زیر زمین بھی دبایا جا سکتا ہے۔
پروفیسر محمد طارق نے کہا کہ پروٹو ٹائپ ڈرون میں تقریباً ایک ہزار میٹر یا 3 ہزار 280 فٹ کی بلندی تک پرواز کرنے اور 20 منٹ تک ہوا میں معلق ہونے کی صلاحیت ہو گی۔
ریسرچ ٹیم کو توقع ہے کہ وہ زرعی مقاصد اور فضائی نگرانی کے لیے بڑا ڈرون تخلیق کرنے میں کامیاب ہو جائے گی جو زیادہ وزن اٹھا سکے گا اور اس میں تصویریں کھینچنے کے لیے سیٹیلائٹ سینسر بھی نصب ہو گا۔
ملائیشین ان مینڈ ڈرونز ایکٹویسٹ سوسائٹی کے عہدیدار ولیم رابرٹ الوسی کا کہنا ہے کہ ڈرون کو ڈیزائن کرنے کا مقصد کاشتکاروں کو پیداوار میں اضافہ کرنا اور زرعی شعبے سے وابستہ ملازمتوں کو زیادہ سہل بنانا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مصر میں سنیک مساج سینٹر کھل گئے
یاد رہے کہ ملائیشین ان مینڈ ڈرونز ایکٹویسٹ سوسائٹی ایک غیر سرکاری گروپ ہے جو ڈرون ڈیزائن کرنے میں مدد کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کی تشہیر پر مامور ہے۔ 2017 میں انناس کے تنوں سے ڈرون کے فریم بنانے کا منصوبہ شروع کرنے سے قبل کسان انناس کے تنے اور دیگر باقیات کو ضائع کر دیتے تھے لیکن ڈرون منصوبے کے آغاز کے بعد سے کاشت کاروں کو توقع ہے کہ انناس کی باقیات سے نئی نئی چیزیں ایجاد ہوں گی اور ان کی معاشی صورتِ حال بھی بہتر ہو گی۔