لاہور: (ہارون احمد) جدید ٹیکنالوجی اور دیگر دنیا سے 50سال آگے چلنے کی بات کی جائے اور جاپان کا ذکر نہ ہو ایسا ممکن نہیں۔
امریکہ کی جانب سے ایٹمی حملے کا سامنا کرنے کے باوجود جس طرح جاپان نے اپنی قابلیت اور ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ترقی کی منازل طے کیں وہ بے شک قابل ستائش ہے۔ جاپان نے دوسری عالمی جنگ میں مکمل تباہی کے صرف18برس بعد دنیا کی پہلی ہائی سپیڈ ٹرین(ٹوکائیڈو شن کاسی)لانچ کر کے پوری دنیا کو ورطۂ حیر ت میں مبتلا کر دیا۔
دنیا بھر میں گاڑیوں میں شاک ابزوربر لگائے جاتے ہیں لیکن جاپان میں فلک بوس عمارتوں کی تعمیر کے وقت ان کی بنیادوں میں بھی شاک ابزوربر لگائے جاتے ہیں تاکہ عمارتوںکو زلزلے سے محفوظ رکھا جا سکے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ جاپان کا ہر منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے،کچھ انجینئر مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور اکثر منصوبے بری طرح ناکام بھی ہو جاتے ہیں۔
جاپان میں موجود کانسائی انٹرنیشنل ائیر پورٹ کو بناتے ہوئے بھی کچھ ایسی ہی غلطیاں کی گئیں جس کی جاپان کو بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔جاپان کے کانسائی علاقے میں بنایا گیا یہ ائیر پورٹ اوساکا، کوبے اور کیٹو شہر کے بہت قریب ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ائیر پورٹ کے50کلومیٹرکے علاقے میں تین ائیر پورٹ پہلے سے موجود ہیں۔ یہاں ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تین ائیر پورٹس کے ہوتے ہوئے کانسائی ائیر پورٹ کیوں تعمیر کیا گیا۔ جاپان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور معاشی ضروریات کی وجہ سے کانسائی ائیر پورٹ تعمیر کیا گیا کیونکہ جو ائیر پورٹ پہلے سے اس علاقے میں موجود تھے ان کے ارد گرد بہت بڑی تعداد میں آبادی موجود ہے اس لئے ان کی توسیع کرنا ممکن نہیں تھا۔
جاپانی حکومت کو اپنی برآمدات بڑھانے اور سیاحوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنے کیلئے اوساکا بے پر ایک ائیر پورٹ کی بہت ضرورت تھی۔ کانسائی علاقے میں جو زمین ائیر پورٹ کیلئے مناسب تھی وہاں کھیتی باڑی کی جاتی تھی اور وہاں کے کسانوں نے اپنی زمین ائیر پورٹ کیلئے دینے سے انکار کر دیا۔ صورتحال کو دیکھتے ہوئے جاپان نے فیصلہ کیا کہ ائیر پورٹ سمند ر کے اندر تعمیر کیا جائے گا۔
اوساکا بے کا جو حصہ ائیر پورٹ کیلئے منتخب کیا گیا وہ 60فٹ گہرا تھا ۔ یہاں ائیرو پورٹ تعمیر کرنے کیلئے ضروری تھا کہ وہاں ایک جزیرہ بھی بنایا جائے۔1987ء میں کانسائی انٹرنیشنل ائیر پورٹ کی تعمیرکا آغاز کیا گیا، ابتدائی طور پر اس منصوبے کیلئے 8بلین ڈالر مختص کئے گئے لیکن مختلف پیچیدگیوں کی وجہ سے منصوبے کی لاگت 8بلین ڈالر سے بڑھتی ہوئی20بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔
انجینئرز کی جانب سے کانسائی ائیرپورٹ کی تعمیر کے لئے دو جزائر ڈیزائن کئے گئے جن میں ایک 4جبکہ دوسرا 5کلومیٹر لمبا تھا۔جزائر کی تعمیر کیلئے 60 فٹ گہرے سمندر کو بھرنے کیلئے 750ملین کیوسک فٹ مٹی کا استعمال کیا گیا۔سطح سمندر کا معائنہ کرنے کے بعد کچھ ماہرین نے بتایا کہ اس قدر دیو قامت سٹرکچر کم از کم 19فٹ تک زمین کے اندر دھنسے گا جبکہ کچھ ماہرین کے مطابق جزیرہ 25فٹ سے بھی زیادہ زمین کے اندر دھنس سکتا ہے۔منصوبے کی لاگت بچانے کے لئے انتظامیہ نے جزائر اور ائیر پورٹ کو 19فٹ اندر دھنسنے کے حساب سے ڈیزائن کروایا اور یہی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
تعمیر کا پہلا مرحلہ سطح سمند ر کو سخت کرنے کا تھا جس کے لئے 10لاکھ ڈرلنگ پائپوں کا استعمال کیا گیا۔ ان جزائر کی مضبوطی کا انحصار ان کے ارد گرد بنائی جانے والی سی وال(Sea Wall) پر تھا جس کے لئے کنکریٹ کے48ہزار بلاکس کا استعمال کیا گیا۔
انجینئر کو معلوم تھا کہ کانسائی ائیرپورٹ 19فٹ تک زمین کے اندر دھنسے گا لیکن حیران کن طور پر یہ اپنی تعمیر کے دوران ہی 34فٹ تک زمین کے اندر دھنس چکا تھا۔جن جزائر کو سمندر سے65فٹ اوپر تعمیر کیا گیا تھا اس میں سے34فٹ ائیر پورٹ فنکشنل ہونے سے قبل ہی کم ہوگئے۔اس کے باوجود ماہرین نے وعویٰ کیا کہ50سال میں ائیر پورٹ سمندر سے13فٹ کی انچائی پر پہنچ کر مستحکم ہو جائے گا۔
یہاں بھی جاپانی ماہرین کا دعویٰ غلط ثابت ہو ااور جس صورتحال کی وہ 50سال بعد توقع کر رہے تھے وہ صرف دس سال بعد ہی ان کے سامنے کھڑی تھی۔ ائیر پورٹ کا دوسرا ٹرمینل آپریشنل ہونے سے قبل کانسائی جزائر52فٹ زمین کے اندر دھنس کر 13فٹ کی انچائی تک پہنچ چکے تھے۔ماہرین کے مطابق2056ء تک کانسائی ائیر پورٹ مزید13فٹ زمین کے اندر گھس کر سمندر میں ڈوب جائے گا لیکن ساتھ ہی ساتھ اربوں ڈالر کی اس سرمایہ کاری کو بچانے کے لئے کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ ائیر پورٹ کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے اس کی سی وال(Sea Wall) کو مسلسل اونچا کی جارہا ہے جس پر اب تک150ملین ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔
جزائر کی بنیادوں میں ہائیڈرولک پمپ بھی نصب کئے گئے ہیں جن کی مدد سے ہردوسرے سال جزائر کی فاؤنڈیشن (Foundation) کو 1.5 انچ اوپر اٹھایا جاتا ہے، ان اقدامات سے کانسائی ائیر پورٹ کے ڈوبنے کے خدشات ختم تو نہیں ہو رہے لیکن ڈوبنے کا عمل سست رفتار ضرور ہو گیا ہے۔
ہارون احمد بزنس سٹڈیز کے ماہر اور شعبہ درس و تدریس سے منسلک ہیں، ان کے مضامین ملک کے مؤقر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔