کابل: (ویب ڈیسک) افغانستان کی اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہے، اسلام آباد نے نے ہمارے ملک جاری امن مذاکرات کی حمایت کا پیغام بھیجا ہے جو ہمارے مفاد میں ہے۔
حال ہی میں پاکستان کا دورہ کر کے واپس جانے والے عبد اللہ عبد اللہ نے امریکی خبر رساں ادارے کو ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ میں نے پاکستانی قیادت سے کہا ہے کہ وہ طالبان پر اپنا تمام اثر و رسوخ استعمال کریں تاکہ امن عمل کو مدد مل سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے دوران امن کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو عملی جامہ پہنانے پر تبادلہ خیال کیا جو دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ میرے خیال میں پاکستان کی سیاسی قیادت، فوج اور دیگر ادارے ایک صفحے پر ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں جاری امن مذاکرات کی حمایت کا پیغام بھیجا ہے جو افغانستان کے مفاد میں ہے۔ اسلام آباد کے افغان امن عمل میں کردار کے بعد یہ ضروری تھا کہ میں وہاں کا دورہ کروں۔
یاد رہے کہ عبداللہ عبداللہ گزشتہ دورِ حکومت میں جب افغانستان کے چیف ایگزیکٹو تھے تو انہوں نے پاکستان کے دورے کی دعوت کو کئی بار ٹھکرا دیا تھا۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے افغانستان کی اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ افغان حکومت اور طالبان ایک میز پر بیٹھ کر مذاکرات کر رہے ہیں، حالات کے بدلاؤ نے اُن کے ذہن کو بدل دیا ہے۔ افغانستان سمیت اس خطے میں اور دنیا بھر میں امن کی جانب کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مگر اس دوران بڑھتے تشدد کی وجہ سے ان کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
بین الافغان مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں ایران کے کسی نمائندے کی عدم موجودگی سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکا کیسساتھ جاری کشمکش کی وجہ سے ایران نے دوحہ میں ہونے والی امن مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کی۔تہران کو بھی تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ لیکن تہران کی امریکا کے ساتھ کشیدگی میں شدت آ گئی ہے اور صورتِ حال بعض اوقات آپ کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔
عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ایران، افغان امن مذاکرات کے حق میں ہے اور وہ افغانستان کا ایسا ہمسایہ ہے جو لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی بھی کر رہا ہے۔ انہوں نے اس امر سے بھی اتفاق کیا کہ ایران کے افغانستان سے متعلق جائز خدشات اور مفادات ہیں۔ تہران کے مختلف طالبان گروہوں کے ساتھ تعلقات کا مذاکرات کے دوران فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
انٹرویو کے دوران عبداللہ عبداللہ نے اِن خدشات کی نفی کی کہ افغانستان کی حکومت مذاکرات کے سلسلے میں تقسیم کا شکار ہے۔ افغان سیاسی قیادت بہت سے گروہوں پر مشتمل ہے اور ان لوگوں نے پچھلے دو عشروں سے جمہوریت پر عمل کیا ہے۔ تمام افغان قیادت امن مذاکرات کے حق میں ہے اور اس سلسلے میں ان کے مابین اختلافات کی نوعیت تکنیکی ہیں۔
عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ اگر امریکا افغانستان سے اپنی تمام فوج واپس بلا لیتا ہے تو ایسی صورت میں اس کا اثر تو ہو گا یہ ہم ہی ہیں جنہیں مل کر افغان تنازع کا کوئی حل نکالنا ہے تاکہ ہم ساتھ مل کر امن سے رہ سکیں اور ہمارے شہریوں کو کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ نہ ہی ہمارے ہمسایوں کو، اور نہ ہی تمام بین الاقوامی برادری کو۔